کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 778
الحاقّہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ قران کی تلاوت سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیران رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے جی میں کہا: " خدا کی قسم یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں" لیکن اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ﴿إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ،وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلا مَا تُؤْمِنُونَ﴾( الحاقّہ69: 40۔41) ’’یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے____ اپنے جی میں_____کہا: (اوہو) یہ تو کاہن ہے۔ لیکن اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَلا بِقَوْلِ كَاھِنٍ قَلِيلا مَا تَذَكَّرُونَ ،تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾( الحاقّہ69: 42۔43 (الیٰ اٰخر السورۃ) ’’یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں،تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔‘‘ ( اخیر سورہ تک) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے اس وقت میرے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا۔[1] یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام کا بیج پڑا، لیکن ابھی انکے اندر جاہلی جذبات، تقلیدی عصبیت اور آباءاجداد کے دین کی عظمت کے احساس کا چھلکا اتنا مضبوط تھا کہ نہاں خانہ دل کے اندر مچلنے والی حقیقت کے مغز پر غالب رہا، اس لئے وہ اس چھلکے کی تہہ میں چھپے ہوئے شعور کی پرواہ کئے بغیر اپنے اسلام دشمن عمل میں سرگرداں رہے۔ ان کی طبعیت کی سختی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرط عداوت کا یہ حال تھا کہ ایک روز خود جناب محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کرنے کی نیت سے تلوار لیکر نکل پڑے