کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 777
سے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَ لّٰھُمَّ اَعِزَّ الاِسلاَمِ بِاَحَبِّ الَّجُلَینِ اِلَیکَ بعمر بن الخطاب اَو بِاَبِی جہل بن ہشام)) ’’اے اللہ! عمر بن الخطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوّت پہنچا۔‘‘ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کے انکے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مزج اور جذبات و احساسات کی طرف بھی مختصرا" اشارہ کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لئے ،مشہور تھے۔مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک انکے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست و گریباں تھے،چنانچہ ایک طرف تو وہ آباؤ اجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہوولعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان اور عقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی اور مصائب کے سلسلے میں ان کی قوت برداشت کو خوشگوارحیرت و پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔پھر انکے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک و شبہات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرتا تھا کہ اسلام جس چیز کی دعوت دے رہا ہے غالبا" وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔اس لئے ان کی کیفیت دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی تھی کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔[2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع و تطبیق______ یہ ہے کہ ایک دفعہ انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔وہ حرم تشریف لائے اور خانہ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ