کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 774
حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب بن گئی۔تفصیل آگے آ رہی ہے۔ جہاں تک قریش کے دوسرے بدمعاشوں کا تعلق ہے تو انکے دلوں میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےخاتمے کا خیال برابر پک رہا تھا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ابن اسحٰق نے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ایک بار مشرکین حطیم میں جمع تھے۔میں بھی موجود تھا۔مشرکین نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھیڑا اور کہنے لگے: اس شخص کے معاملے میں ہم نے جیسا صبر کیا ہے اس کی مثال نہیں۔درحقیقت ہم نے اس کے معاملے میں بہت ہی بڑی بات پر صبر کیا ہے۔ یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمودار ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر پہلے حجر اسود کو چوما پھر طواف کرتے ہوئے مشرکین کے پاس سے گزرے۔انہوں نے کچھ کہہ کر طعنی زنی کی جس کااثر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر دیکھا۔ اس کے بعد آپ سہ بارہ گزرے تو مشرکین نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن طعن کی۔اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹہر گئے اور فرمایا: قریش کے لوگو! سن رہے ہو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس (تمہارے) قتل و ذبح (کا حکم) لے کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے لوگوں کو پکڑ لیا۔(ان پر ایسا سکتہ طاری ہواکہ) گویا ہر آدمی کے سر پر چڑیا ہے، یہاں تک کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ سخت تھا وہ بھی بہتر سے بہتر لفظ جو پا سکتا تھا اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب گار رحمت ہوتے ہوئے کہنے لگا کہ ابو القاسم! واپس جائیے۔خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نادان نہ تھے۔ دوسرے دن قریش پھر اسی طرح جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمودار ہوئے،دیکھتے ہی سب (یکجان ہو کر) ایک آدمی کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پل پڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا۔پھر میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے گلے کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پکڑ لی۔( اور بل دینے لگا) ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے بچاؤ میں لگ گئے۔وہ روتے جاتے تھے اور جاتے تھے: اَتَقتُلُونَ رَجُلاً اَن یَّقُولَ رَبِیّ اللہ؟ کیا تم لوگ ایک آدمی کو اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ اس کے بعد وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر پلٹ گئے_____عبداللہ