کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 773
روشنی پرتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتمے کے چکر میں تھے،چنانچہ روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار ابو جہل نے کہا: برادران قریش! آپ دیکھتے ہیں کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دین کی عیب چینی ہمارے آباؤاجداد کی بد گوئی،ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا، اس لئے میں اللہ سے عہد کر رہا ہوں کہ ایک بھاری اور بہت ہی مشکل سے اٹھنے والا پتھر لیکر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو اسی پتھر سے اسکا سر کچل دونگا۔اب اس کے بعد چاہے تم لوگ مجھے بے یارومددگار چھوڑ دو،چاہے میری حفاظت کرو۔اور بنو عبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں۔ لوگوں نے کہا! نہیں واللہ ہم تمہیں کسی بھی معاملے میں بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے،تم جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو۔ صبح ہوئی تو ابو جہل ویسا ہی ایک پتھر لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھ گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب دستور تشریف لائے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آچکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی کے منتظر تھے۔ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو ابو جہل نے پتھر اٹھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بڑھا۔لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا۔اس کا رنگ فق تھا اور وہ اس قدر مرعوب تھا کے اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے۔وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا۔ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: ابو حکم تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جا رہا تھا تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔بخدا میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی ویسی گردن اور ویسے دانت نہیں دیکھے ہی نہیں۔وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں: ’’مجھے بتایا گیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" یہ جبریل علیہ السلام تھے۔اگر ابو جہل قریب آتا تو اسے دھر پکڑتے‘‘[1] اس کے بعد ابو جہل نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک ایسی حرکت کی جو حضرت