کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 769
ستاؤں اور اس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔
اس کے بعد اس نے اپنے حاشیہ نشینوں سے مخاطب ہو کر کہا: ان دونوں کو ان کے ہدیے واپس کردو،مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اس کی راہ پر رشوت لوں۔ نیز اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات قبول نہ کی تھی کہ میں اللہ کے بارے میں لوگوں کی بات مانوں۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ جنوں نے اس واقعے کو بیان کیا ہے کہتی ہیں کہ اس کے بعد وہ دونوں اپنے ہدی تحفے لئے بےآبرو ہو کر واپس چلے گئے اور ہم نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے۔[1]
یہ ابن اسحٰق کی روایت ہے۔ دوسرے سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ نجاشی کے دربار میں حضرت عمرو بن عاص کی حاضری جنگ بدر کے بعد ہوئی تھی۔ بعض لوگوں نے تطبیق کی یہ صورت بیان کی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کی واپسی کے لئے دو مرتبہ گئے تھے لیکن جنگ بدر کی حاضری کے ضمن میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور نجاشی کے درمیان سوال و جواب کی جو تفصیلات بیان کی جاتی ہیں وہ تقریبا" وہی ہیں جو ابن اسحٰق نے ہجرت حبشہ کی حاضری کے سلسلے میں بیان کی ہیں۔ پھر ان سوالات کے مضامین سے واضح ہو جاتا ہے کہ نجاشی کے پاس یہ معاملہ ابھی پہلی بار پیش ہوا تھا اس لئے ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ مسلمانوں کو واپس آنے کی کوشش صرف ایک بار ہوئی تھی اور وہ ہجرت حبشہ کے بعد تھی۔
بہر حال مشرکین کی چال ناکام ہو گئی اور ان کی سمجھ میں آگیا کہ وہ اپنے جذبہ عداوت کو اپنے دائرہ اختیار ہی میں آسودہ کر سکتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں انہوں ایک خؤفناک بات سوچنی شروع کر دی۔ درحقیقت انہیں اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ اس "مصیبت" سے نمٹنے کے لئے اب انکے سامنے دو ہی راستے رہ گئے ہیں۔ یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ سے بزور طاقت روک دیں، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود ہی کا صفایا کر دیں۔ لیکن دوسری صورت حد درجہ مشکل تھی کیونکہ ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ تھے اور مشرکین کے عزائم کے سامنے