کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 767
قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا تھی، ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،بدکاریاں کرتے تھے، قرابتداروں سے تعلق توڑتے تھے، ہمسائیوں سے بد سلوکی کرتے تھے، اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا، ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔ اس کی عالی نسبی، سچائی، اور پاک دامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی، اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا، اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں، اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے،قرابت جوڑنے،پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خون ریزی سے باز رہنے کا حکم دیا۔اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے، اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اس نے ہمیں نماز، روزہ اور زکوٰٰۃ کا حکم دیا______ اسی طرح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اسلام کے کام گنائے پھر کہا: ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا،اس پر ایمان لائے، اور اس کے لائے ہوئے دین خداوندی میں اس کی پیروی کی چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، اور جن باتوں کو اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام بتایا انہیں حرام مانا، اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال جانا، اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی، اس نے ہم پر ظلم و ستم کیا، اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کی لئے فتنہ اور سزاؤں سے دوچار کیا تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت قہرو ظلم ،کیا زمین تنگ کردی، اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان روک بن کر کھڑے ہو گئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی۔اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا۔ اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ ! آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائیگا۔ نجاشی نے کہا:" وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟" حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا! "ہاں" نجاشی نے کہا: ذرا مجھے بھی پڑھ کے سناؤ۔