کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 764
کا مقصد یہ تھا کہ قریش کو اسکا علم نہ ہو سکے۔ رخ بحرہ احمر کی بندرگاہ شُُُُعیبہ کی جانب تھا۔ خوش قسمتی سے وہاں دو تجارتی کشتیاں موجود تھیں جو انکو اپنے دامن عافیت میں لے کر سمندر پار حبشہ چلی گئیں۔ قریش کو کسی قدر بعد ان کی روانگی کا علم ہو سکا،تاہم انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل تک پہنچے لیکن صحابہ کرام آگے جا چکے تھے اس لئے نامراد واپس آئے۔ ادھر مسلمانوں نے حبشہ پہنچ کر بڑے چین کا سانس لیا۔[1] اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حرم تشریف لے گئے، وہاں قریش کا بڑا مجمع تھا،انکے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دم اچانک ہی کھڑے ہو کر سورۃ نجم کی تلاوت شروع کردی۔ان کفّار نے اس سے پہلے عموماًقران سنا نہیں تھا کیونکہ انکا دائمی وطیرہ قران کے الفاظ میں یہ تھا کہ:
﴿لا تَسْمَعُوا لِھَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ﴾( فصلت41: 26)
’’اس قران کو مت سنو اور اسمیں خلل ڈالو۔(اودھم مچاؤ) تاکہ تم غالب رہو۔‘‘
لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک اس سورت کی تلاوت شروع کر دی اور انکے کانوں میں ایک ناقابل بیان رعنائی و دلکشی اور عظمت لئے ہوئے کلام الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا۔سب کے سب گوش بر آواز ہو گئے کسی کے دل میں کوئی اور خیال ہی نہیں آیا۔یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ کے اواخر میں دل دہلا دینے والی آیات تلاوت فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ:
﴿فَاسْجُدُوا للّٰه وَاعْبُدُوا﴾( النجم53: 62)
’’اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔‘‘
اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حق کی رعنائی اور جلال نے متکبّرین و مستہزمیں کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کر دیا تھا۔اس لئے انہیں اپنے آپ پر قابو نہ رہ گیا تھا اور وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے تھے۔[2]
بعد میں انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ کلام الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کر بیٹھے جسے مٹانے کے لئے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا