کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 763
میں اس بات کی طرف لطیف اشارہ پنہاں ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس وقت جو ظلم و تشدّد برپا ہےاس کے نتائج بالکل برعکس نکلیں گے۔اور یہ سرکش مشرکین اگر ایمان نہ لائے تو آئندہ ان ہی مقہور و مجبور مسلمانوں سرنگوں ہو کر اپنی قسمت کے فیصلے کے لئے پیش ہونگے۔
ذوالقرنین کے واقعے میں چند خاص باتوں کی طرف اشارہ ہے۔
1۔ یہ کہ زمین اللہ کی ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے
2۔ یہ کہ فلاح و کامرانی ایمان ہی کی راہ میں ہے، کفر کی راہ میں نہیں۔
3۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ رہرہ کر اپنے بندوں میں سے ایسے افراد کھڑے کرتا رہتا ہے جو مجبور و مقہور انسانوں کو اس دور کے یاجوج وماجوج سے نجات دلاتے ہیں۔
4۔ یہ کہ اللہ کے صالح بندے ہی زمین کی وراثت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔
پھر سورۃ کہف کے بعد سورۃ زمر کا نزول ہوا اور اس میں ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔
﴿لِلَّذِينَ اَحْسَنُوا فِي ھَذِہِ الدُّنْيَا حَسَنَہٌ وَاَرْضُ اللّٰه وَاسِعَۃٌ اِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ اَجْرَھُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾( الزمر29: 10)
ترجمہ: جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھائی کی ان کے لئے اچھائی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے،صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائیگا۔
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ اصحمہ نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے۔وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لئے حبشہ ہجرت کر جائیں۔ اس کے بعد ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق رجب 5 سن نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔ حجرت عثمان بن عفّان انکے امیر تھے اور انکے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہ بھی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔[1]
یہ لوگ تاریکی کے راستے میں چپکے سے نکل کر اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔رازداری