کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 760
کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکّہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھ رکھوا دیتا۔پھر کہتا خدا کی قسم! تو اسی طرح پڑا رہیگا یہاں تک کہ تو مر جائے،یا محمّد کے ساتھ کفر کرے۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس حالت میں بھی فرماتے۔احد احد،ایک روز یہی کاروائی جاری تھی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا۔انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک کالے غلام کے بدلے، اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم(735گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم ( ایک کلو سے زائد) چاندی کے بدلے خرید کر آزاد کرا دیا۔[1]
حضرت عمّار بن یاسر رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔انہوں نے اور انکے والدین نے اسلام قبول کیاتو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔مشرکین جن میں ابو جہل پیش پیش تھاسخت دھوپ کے وقت انہیں پتھریلی زمین پر لے جا کر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ایک بار انہیں اسی طرح سزا دی جا رہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" آل یاسر صبر کرنا۔تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔"آخرکار یاسر ظلم کی تاب نہ لا کر وفات پا گئے۔اور سمیّہ جو حضرت عمّار کی والدہ تھیں،ان کی شرمگاہ میں ابو جہل نے نیزہ مارا،اور وہ دم توڑ گئیں۔یہ اسلام کی پہلی شہیدہ ہیں۔حضرت عمّار پر سختی کا سلسلہ جاری رہا،انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی انکے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتااور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا۔ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمّد کو گالی نہیں دوگے یا لات و عزّیٰ کے بارے میں کلمہ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ حضرت عمّار نے مجبورا" ان کی بات مان لی،پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے اور معذرت کرتے ہوئی تشریف لائے۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿مَن كَفَرَ بِاللّٰه مِن بَعْدِ اِيمَانِہِ اِلاَّ مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالاِيمَانِ﴾(النحل16: 103)
ترجمہ: جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا،اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے،لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو(اس پر کوئی گرفت نہیں)۔ [2]
حضرت فکیہ جن کا نام افلح تھا بنی عبدالدار کے غلام تھے۔انکے مالکان انکاپاؤں رسی سے باندھ کر انہیں زمین پر گھسیٹتے پھرتے تھے۔[3]
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ،قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت امّ انمار کے غلام تھے۔مشرکین انہیں طرح طرح کی سزائیں دیتے تھے،انکے سر کے بال نوچتے تھے، اور سختی سے گردن مروڑتے