کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 756
ابو لہب اس کے باوجود یہ ساری حرکتیں کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا اور پڑوسی تھا۔اسکا گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے متصل تھا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے پڑوسی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے اندر ستاتے تھے۔ ابن اسحٰق کا بیا ن ہے جو گروہ گھر کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے اندر اذیت دیا کرتا تھا وہ یہ تھا۔حکم بن ابی الّعاص بن امیّہ، عقبہ بن ابی معیط، عدی بن حمراءثقفی،ابن الاصداءحذلی، یہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی تھے۔اور ان میں سے حکم بن ابی العاص[1]کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ انکے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر گرتی،چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچے دانی اس طرح پھینکتے کے سیدھے ہانڈی میں جا گرتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہوکر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں۔ بہرحال جب آپ صی اللہ علیہ وسلم پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی پر اسے لیکر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہوکر فرماتے:" اے بنی عبد المناف! یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟ پھر اسے راستے میں ڈال دیتے۔[2] عقبہ بن ابی معیط اپنی بد بختی اور خباثت میں اور بڑھا ہواتھا۔چنانچی صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ونہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے کچھ رفقاء بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: کون ہے جو بنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے؟ اس پر قوم کا بدبخت ترین آدمی____عقبہ بن ابی معیط [3] _____اٹھا اور اوجھڑی لاکر انتظار کرنے لگا۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا۔ میں سارا ماجرا دیکھ رہا تھا، مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ کاش میرے اندر بچانے کی طاقت ہوتی۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں پڑے رہے سر نہ اٹھایا۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے اوجھ اٹھا کر پھینکی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا۔ پھر تین بار فرمایا۔ ((اَلَّھُمَّ عَلَیکَ بِقُرَیش))’’اے اللہ قریش کو پکڑلے۔‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی تو ان پر بہت گراں گزری کیونکہ انکا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر بددعا کی: ’’اے