کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 755
ہے کہ یہ شخص صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا بلکہ پتھر بھی مارتا رہتا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتی تھیں۔[1]ابو لہب کی بیوی امّّ جمیل، جس کا نام اردیٰ تھا اور جو حرب بن امیّہ کی بیٹی اور ابو سفیان کی بہن تھی وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں اپنے شوہر سے پیچھے نہ تھی چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی،خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی۔چنانچہ نبی صٌی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنا،لمبی چوڑی دسیسہ کاری و افتراء سے کام لینا، فتنہ کی آگ بھڑکانا اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اسکا شیوہ تھا۔ اسی لئے قران نے اسکو حَمَّا لَطَۃَ الحَطَب (لکڑی ڈھونے والی) کا لقب عطا کیا۔
جب اسے معلوم ہوا کے اس کی اور اس کے شوہر کی مذمت میں قران نازل ہوا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتی ہوئی آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس مسجد حرام میں تشریف فرما تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے۔ یہ مٹی بھر پتھ لئے ہوئے تھی، سامنے کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی۔صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہی تھی۔اس نے سامنے پہنچتے ہی سوال کیا ابو بکر تمہارا ساتھی کہاں ہے؟ مجھے معلوم ہوا کہ وہ میری ہجو کرتا ہے۔بخدا اگر میں اسے پاگئی تو اس کے منہ پر یہ پتھر دے مارونگی،دیکھو خدا کی قسم میں بھی شاعرہ ہوں، پھر اس نے یہ شعر سنایا:
مُذمَّما[2] عَصَینَا وَمرَہُ اَبَینَا وَدِنَہُ قَلَینَا
’’ ہم نے مذمم کی نافرمانی کی، اس کے امر کو تسلیم نہ کیا، اس کے دین کو نفرت اور حقارت سے چھوڑ دیا۔‘‘
اس کے بعد واپس چلی گئی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اس نے مجھے نہیں دیکھا۔اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی تھی۔[3]
ابو بکر بزّاز نے بھی یہ واقعہ روایت کیا ہے اور اس میں اتنا مزید اضافہ ہے کہ جب وہ ابو بکر صدیق کے پاس کھڑی ہوئی تھی تو اس نے یہ بھی کہا؛ابو بکر! تمہارے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا؛ نہیں اس عمارت کے رب کی قسم،نہ وہ شعر کہتے ہیں نہ اسے زبان پر لاتے ہیں۔اس نے کہا تم سچ کہتے ہو۔