کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 754
مشرکین نے یہ قرارداد طے کرکے اسے روبہ عمل لانے کاعزم مصمّم کر لیا۔ مسلمانوں اور خصوصاً کمزور مسلمانوں کے اعتبار سے تو یہ کام بہت آسان تھا،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاظ سے بڑی مشکلات تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر پرشکوہ، باوقار اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔دوست دشمن سب ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت کا سامنا اکرام و احترام سے ہی کیا جا سکتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی نیچ اور ذلیل حرکت کی جراءت کوئی رذیل اور احمق ہی کر سکتا تھا۔اس ذاتی عظمت کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کی حمایت اور حفاظت بھی حاصل تھی اور ابو طالب مکے کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے اتنے باعظمت تھے کہ کوئی شخص انکا عہد توڑنے اور انکے خانوادے پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔اس صورت حال نے قریش کو سخت قلق اور پریشانی اور کشمکش سے دوچار کر رکھا تھا۔مگر سوال یہ ہے کہ جو دعوت ان کی مذہبی پیشوائی اور دنیاوی سربراہی کی جڑ کاٹ دینا چاہتی تھی آخر اسکو اتنا لمبا صبر کب تک؟ بلآخر مشرکین نے ابو لہب کی سربراہی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر ظلم و جور کا آآغاز کر دیا۔در حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ابو لہب کا مؤقف روز اوّل ہی سے، جبکہ ابھی قریش نے اس طرح کی بات سوچی بھی نہ تھی، یہی تھا، اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس نے کوہ صفا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے پتھر بھی اٹھایا تھا۔[1] بعثت سے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کی شادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں رقیہ اور امّ کلثوم رضی اللہ عنہ سےکی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوا دی۔[2] اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے عبداللہ کا انتقال ہوا تو ابو لہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم ابتر(نسل بریدہ) ہوگئے ہیں۔[3] ہم یہ بھی ذکر چھیڑ چکے ہیں کہ ایام حج میں ابو لہب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے لئے بازاروں اور اجتماعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا۔ طارق بن عبداللہ محاربی کی روایت سے معلوم ہوتا