کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 748
پر چند لوگوں نے کہا، ہم کہیں گے کہ وہ کاہن ہے، ولید نے کہا! نہیں بخدا وہ کاہن نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، اس شخص کے اندر نہ کاہنوں کی گنگناہٹ ہے، نہ ان کے جیسی قافیہ بندی یا تک بندی۔
اس پر لوگوں نے کہا: تب ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے۔ ولید نے کہا نہیں وہ پاگل بھی نہیں۔ہم نے پاگل بھی دیکھے ہیں اور ان کی کیفیت بھی۔ اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی سم گھٹنے کی کیفیت اور الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ انکے جیسی بہکی بہکی باتیں۔
لوگوں نے کہا: تب ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے۔ولید نے کہا وہ شاعر بھی نہیں، ہمیں رَجَز، ہجز، قریض،مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔ اس کی بات بہر حال شعر نہیں ہے۔
لوگوں نے کہا تب ہم کہیں گے کہ وہ جادوگر ہے۔ولید نے کہا یہ شخص جادو گر بھی نہیں۔ ہم نے جادو گر اور انکا جادو بھی دیکھا ہے، یہ شخص نہ تو ان کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے نہ گرہ لگاتا ہے۔
لوگوں نے کہا تب ہم کیا کہیں گے؟ ولید نے کہا: خدا کی قسم اس کی بات بڑی شیریں ہے۔ اس کی جڑ پائیدار ہے، اور اس کی شاخ پھلدار، تم جو بات کہوگے لوگ اسکو باطل سمجھیں گے۔ البتّہ اس کے بارے میں سب سے مناسب یہ بات کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے، اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے۔اس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ بالاخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے۔[1]
بعض روایات میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ جب ولید نے لوگوں کی ساری تجاویز رد کردیں تو لوگوں نے کہا پھر آپ ہی اپنی بے داغ رائے پیش کیجئے۔ اس پر ولید نے کہا: ذرا سوچ لینے دو۔ اس کے بعد وہ سوچتا رہا سوچتا رہا، یہاں تک کہ اپنی مذکورہ بالا رائے ظاہر کی۔[2]
اس معاملے میں ولید کے متعلق سورۃ مدّثر کی سولہ 16 آیات نازل ہوئیں جن میں سے چند آیات میںاس کے سوچنے کا نقشہ کھینچا گیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
﴿إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ,فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ,ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ،ثُمَّ نَظَرَ،ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ0ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ،فَقَالَ اِنْ ھَذَا اِلاَّ سِحْرٌ يُؤْثَرُ،إِنْ هَذَا إِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ﴾( مدّثر74: 18۔25)