کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 746
"آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کھول کر بیان کردیجیے اور مشرکین سے رخ پھیر لیجیے "
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے خرافات واباطیل کا پردہ چاک کرنا اور بتوں کی حقیقت اور قدر و قیمت کو واشگاف کرنا شروع کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مثالیں دے دے کر سمجھاتے کہ یہ کس قدر عاجز و ناکارہ ہیں اور دلائل سے واضح فرماتے کہ جو شخص انہیں پوجتا ہے اور ان کو اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بناتا ہے وہ کس قدر کھلی ہوئی گمراہی میں ہے ۔
مکہ ، ایک ایسی آواز سن کر جس میں مشرکین اور بت پرستوں کو گمراہ کہا گیا تھا ، احساس غضب سے پھٹ پڑا ۔ اور شدید غم و غصے سے پیچ و تاب کھانے لگا ، گویا بجلی کا کڑکا تھا جس نے پر سکون فضا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس لیے قریش اس اچانک پھٹ پڑنے والے " انقلاب " کی جڑ کاٹنے کیلئیے اٹھ کھڑے ہوئے کہ اس سے پشتینی رسم و رواج کا صفایا ہوا چاہتا تھا ۔
قریش اٹھ پڑے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غیر اللہ کی الوھیت کے انکار اور رسالت و اخرت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس رسالت کے حوالے کردیا جائے اور ا س کی بے چون و چرا اطاعت کی جائے ، یعنی اس طرح کہ دوسرے تو درکنار خود اپنی جان اور اپنے مال تک کے بارے میں کوئی اختیار نہ رہے اور اس کے معنی یہ تھے کہ مکہ والوں کو دینی رنگ میں اہل عرب پر جو بڑائی اور سرداری حاصل تھی اس کا صفایا ہوجائے گا ، اور اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے مقابل میں انہیں اپنی مرضی پر عمل پیرا ہونے کا اختیار نہ رہے گا ، یعنی نچلے طبقے پر انہوں نے جو مظالم روا رکھے تھے ، اور صبح و شام جن برائیوں میں لت پت رہتے تھے ۔ ان سے دستکش ہوتے ہی بنے گی ______
قریش اس مطلب کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے اس لیے ان کی طبیعت اس " رسوا کن " پوزیشن کو قبول کرنے کیلئیے تیار نہ تھی ، لیکن کسی شرف اور خیر کے پیش نظر نہیں۔﴿بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ﴾ (القیامہ 75: 5)’’بلکہ اس لیے کہ انسان چاہتا ہے کہ آئیندہ بھی برائی کرتا رہے ۔ ‘‘
قریش یہ سب کچھ سمجھ رہے تھے لیکن مشکل یہ آن پڑی تھی کہ ان کے سامنے ایک ایسا شخص تھا جو صادق و امین تھا انسانی اقدار اور مکارم اخلاق کا اعلی نمونہ تھا اور ایک طویل عرصے سے انہوں نے اپنے آباؤاجداد کی تاریخ میں اس کی نظیر نہ دیکھی تھی اور نہ سنی تھی ۔ آخر اس سے بالمقابل کریں تو کیا کریں قریش حیران تھے اور انہیں واقعی حیران ہونا چاہیے تھا ۔
کافی غور و خوض کے بعد ایک راستہ سمجھ میں آیا کہ آپ کے چچا ابو طالب کے پاس جائیں