کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 740
ہو گئے۔ وہ بڑے ہر دلعزیز، نرم خُو، پسندیدہ خصائل کے حامِل، بااخلاق اور دریا دل تھے۔ ان کے پاس ان کی مروت، دور اندیشی، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمدو رفت لگی رہتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے جانے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کر دی۔ ان کی کوشش سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ یہ بزرگ اسلام کا ہَراوَل دستہ تھے۔
شروع شروع میں جو لوگ اسلام لائے انہی میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ ان کے بعد امین الامت حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ، عامر بن جراح رضی اللہ عنہ، ابو سلمہ رضی اللہ بن عبدالاسد، اَرْقم رضی اللہ بن ابی الارقم، عثمان بن مَطعُون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ رضی اللہ اور عبداللہ رضی اللہ، عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف، سعید رضی اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی افراد مسلمان ہوئے۔ یہ لوگ مجموعی طور پر قریش کی تمام شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ابن ہشام نے ان کی تعداد چالیس سے زیادہ بتائی ہے۔ (دیکھئے 245/1 تا 262) لیکن ان میں سے بعض کو سابقین اولین میں شمار کرنا محلِ نظر ہے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ا س کے بعد مرد اور عورتیں اسلام میں جماعت در جماعت داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ مکہ میں اسلام کا ذکر پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہو گیا۔ [1]
یہ لوگ چھپ چھپا کر مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چھُپ چھپا کر ہی ان کی رہنمائی اور دینی تعلیم کے لیے ان کے ساتھ جمع ہوتے تھے کیونکہ تبلیغ کا کام ابھی تک انفرادی طور پر پسِ پردہ چل رہا تھا۔ ادھر سورہ مدثر کی ابتدائی آیات کے بعد وحی کی آمد پورے تسلسل اور گرم رفتاری کے ساتھ جاری تھی۔ اس دور میں چھوٹی چھوٹی آیتیں نازل ہو رہی تھیں۔ ان آیتوں