کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 737
کی با عظمت قیادت اور رشد و ہدایت سے لبریز فرمودات کی روشنی میں انجام دیا جائے۔ پھر ان آیات کا مَطلع اللہ بزرگ و برتر کی آواز میں ایک آسمانی نداء پر مشتمل ہے۔ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عظیم و جلیل کام کے لیے اٹھنے اور نیند کی چادر پوشی اور بستر کی گرمی سے نکل کر جِہاد وَ کَفَاح اور سعی ومشقت کے میدان میں آنے کے لیے کہا گیا ہے۔﴿ٰيَاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ﴾(74: 1۔2) اے چادر پوش اُٹھ اور ڈرا، گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جسے اپنے لیے جینا ہے وہ تو راحت کی زندگی گزار سکتا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس زبردست بوجھ کو اٹھا رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے کیا تعلق؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت سے کیا سروکار؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرم بستر سے کیا مطلب؟ پرسکون زندگی سے کیا نسبت؟ راحت بخش سازوسامان سے کیا واسطہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ جایئے اس کارِ عظیم کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتظر ہے۔ اس بارِ گراں کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تیار ہے، اُٹھ جایئے جہد و مشقت کے لیے، تکان اور محنت کے لیے اٹھ جایئے کہ اب نیند اور راحت کا وقت گزر چکا ہے، اب آج سے پیہم بیداری ہے اور طویل و پُرمشقت جہاد ہے اُٹھ جایئے اور اس کام کے لیے مستعد اور تیار ہو جائیے۔ یہ بڑا عظیم اور پُر ہیبت کلمہ ہے۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پُرسکون گھر، گرم آغوش اور نرم بستر سے کھینچ کر تند طوفانوں اور تیز جھکڑوں کے درمیان اتھاہ سمندر میں پھینک دیا اور لوگوں کے ضمیر اور زندگی کے حقائق کی کشاکش کے درمیان لا کھڑا کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے اور بیس سال سے زیادہ عرصے تک اُٹھے رہے۔ راحت و سکون تَجْ دیا۔ زندگی اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے نہ رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے تو اٹھے ہی رہے۔ کام اللہ کی طرف دعوت دینا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر توڑ بارِ گراں اپنے شانے پر کسی دباؤ کے بغیر اٹھا لیا۔ یہ بوجھ تھا اس روئے زمین پر امانت کُبریٰ کا بوجھ۔ ساری انسانیت کا بوجھ، سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف میدانوں میں جہاد و دفاع کا بوجھ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس سال سے زیادہ عرصے تک پیہم اور ہمہ گیر معرکہ آرائی میں زندگی بسر کی اور اس پورے عرصے میں یعنی جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آسمانی ندائے جلیل سُنی اور یہ گراں بار ذمہ داری پائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ایک حالت کسی دوسری حالت سے غافل نہ کر سکی۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف سے اور ساری انسانیت کی طرف سے بہترین جزا دے۔ [1] اگلے صفحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طویل اور پر مشقت جہاد کا ایک مختصر سا خاکہ ہیں ۔