کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 736
جانب سے مخالفت، استہزا، ہنسی اور ٹھٹھے کی شکلوں میں ایذار سانی سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو قتل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہونے والے اہلِ ایمان کو نیست و نابود کرنے تک کی بھرپور کوششیں ہوں گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب سے سابقہ پیش آئے گا۔ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی پامردگی اور پختگی سے صبر کرنا ہو گا۔ وہ بھی اس لیے نہیں کہ اس صبر کے بدلے کسی حظ نفسانی کے حصول کی توقع ہو۔ بلکہ محض اپنے رب کی مرضی اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے﴿وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ﴾ اللہ اکبر! یہ احکامات اپنی ظاہری شکل میں کتنے سادہ اور مختصر ہیں اور ان کے الفاظ کی بندش کتنی پرسکون اور پرکشش نغمگی لیے ہوئے ہے۔ لیکن عمل اور مقصد کے لحاظ سے یہ احکامات کتنے بھاری کتنے باعظمت اور کتنے سخت ہیں اور ان کے نتیجے میں کتنی سخت چومکھی آندھی پبا ہو گی جو ساری دنیا کے گوشے گوشے کو ہلا کر اور ایک دوسرے سے گتُھ کر رکھ دے گی۔ ان ہی مذکورہ آیات میں دعوت و تبلیغ کا مواد بھی موجود ہے۔ اِنذار کا مطلب ہی یہ ہے کہ بنی آدم کے کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا انجام بُرا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کو نہ تو ان کے سارے اعمال کا بدلہ دیا جا تا ہے اور نہ دیا جاسکتا ہے، اس لیے انذار کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دنیا کے دنوں کے علاوہ ایک دن ایسا بھی ہونا چاہیے جس میں ہر عمل کا پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جا سکے۔ یہی قیامت کا دن جزاء کا دن اور بدلے کا دن ہے۔ پھر اس دن بدلہ دیئے جانے کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم دنیا میں جو زندگی گزار رہے ہیں اس کے علاوہ بھی ایک زندگی ہو۔ بقیہ آیات میں بندوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ توحید خالص اختیار کریں۔ اپنے سارے معاملات اللہ کو سونپ دیں اور اللہ کی مرضی پر نفس کی خواہش اور لوگوں کی مرضی کو تج دیں۔ اس طرح دعوت و تبلیغ کے مواد کا خلاصہ یہ ہوا: (الف) توحید (ب) یومِ آخرت پر ایمان (ج) تزکیۂ نفس کا اہتمام۔ یعنی انجامِ بد تک لے جانے والے گندے اور فحش کاموں سے پرہیز اور فضائل و کمالات اور اعمال خیر پر کاربند ہونے کی کوشش۔ (د) اپنے سارے معاملات کی اللہ کو حوالگی و سپردگی (ہ) پھر اس سلسلے کی آخری کڑی یہ ہے کہ یہ سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم