کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 731
حراء سے نکلے تو پھر واپس آ کر اپنی بقیہ مدت قیام پوری کی، اس کے بعد مکہ تشریف لائے۔ طبری کی روایت سے آپ کے نکلنے کے سبب پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ روایت یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کی مخلوق میں شاعر اور پاگل سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی قابلِ نفرت نہ تھا۔ ﴿میں شدتِ نفرت سے﴾ ان کی طرف دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ (اب جو وحی آئی تو) میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ یہ ناکارہ.... یعنی خود آپ.... شاعر یا پاگل ہے! میرے بارے میں قریش ایسی بات کبھی نہ کہہ سکیں گے۔ میں پہاڑ کی چوٹی پر جا رہا ہوں وہاں سے اپنے آپ کو نیچے لڑھکا دوں گا اور اپنا خاتمہ کر لوں گا اور ہمیشہ کے لیے راحت پا جاؤں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں یہی سوچ کر نکلا۔ جب بیچ پہاڑ پر پہنچا تو آسمان سے ایک آواز سنائی دی، اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نے آسمان کی طرف اپنا سر اُٹھایا۔ دیکھا تو جبریل علیہ السلام ایک آدمی کی شکل میں اُفق کے اندر پاؤں جمائے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں: اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں وہیں ٹھہر کر جبریل علیہ السلام کو دیکھنے لگا اور اس شغل نے مجھے میرے ارادے سے غافل کر دیا۔ اب میں نہ آگے جا رہا تھا نہ پیچھے۔ البتہ اپنا چہرہ آسمان کے افق میں گھما رہا تھا اور اس کے جس گوشے پر بھی میری نظر پڑتی تھی جبریل اسی طرح دکھائی دیتے تھے۔ میں مسلسل کھڑا رہا۔ نہ آگے بڑھ رہا تھا نہ پیچھے یہاں تک کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میری تلاش میں اپنے قاصد بھیجےاور مکہ تک جا کر پلٹ آئے۔ لیکن میں اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پھر جبریل علیہ السلام چلے گئے اور میں بھی اپنے اہلِ خانہ کی طرف پلٹ آیا اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر ان کی ران کے پاس انہیں پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کہا، ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے؟ بخدا! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آدمی بھیجے اور وہ مکہ تک جا کر واپس آگئے (اس کے جواب میں) میں نے جو کچھ دیکھا تھا انھیں بتا دیا۔ انھوں نے کہا: چچا کے بیٹے! آپ خوش ہو جائیے اور آپ ثابت قدم رہیے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں اُمید کرتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمت کے نبی ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ انھیں ماجرا سنایا۔ انھوں نے کہا قدوس، قدوس، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ورقہ کی جان ہے، ان کے پاس وہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔ یہ اس اُمت کے نبی ہیں۔ ان سے کہو ثابت قدم رہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ کی بات بتائی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حراء میں اپنا قیام پورا کر لیا اور (مکہ) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ نے ملاقات کی اور