کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 729
آئیے اب ذرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں۔ یہ انوارِ لاہوت کا ایک ایسا شعلہ تھا جس سے کفر و ضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں، یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی محبوب ہو گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروفِ عبادت رہتے۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم توشہ لے جاتے۔ پھر ﴿توشہ ختم ہونے پر﴾ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حق آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو! ۔ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ جکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو!۔ میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا پھر چھوڑ کر کہا ﴿اقرأ باسم ربك الذي خلق ، خلق الإنسان
_________________________
(بقیہ نوٹ گزشتہ صفحہ) دوسرے قول کی ترجیح کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حراء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ماہِ رمضان میں ہوا کرتا تھا اور معلوم ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حراء ہی میں تشریف لائے تھے۔
جو لوگ رمضان میں نزول وحی کے آغاز کے قائل ہیں اُن میں پھر اختلاف ہے کہ اس دن رمضان کی کون سی تاریخ تھی۔ بعض سات کہتے ہیں، بعض سترہ اور بعض اٹھارہ (دیکھئے مختصر السیرہ، ص ۷۵۔ رحمتہ اللعالمین ۴۹/۱)
میں نے ۲۱ تاریخ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے.... حالانکہ مجھے اس کا کوئی قائل نظر نہیں آیا کہ بیشتر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ کی بعثت دو شنبہ کے روز ہوئی تھی اور اس کی تائید ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو شنبہ کے دن روزے کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا۔ اور جس میں مجھے پیغمبر بنایا گیا۔ یا جس میں مجھ پر وحی نازل کی گئی۔ (صحیح مسلم 1/۳۶۸، مسند احمد 5/۲۹۷۔ ۲۹۹ بیہقی 4؍۲۸۶۔ ۳۰۰ حاکم 6؍۶۔۲).... اور اس سال رمضان میں دو شنبہ کا دن ۷، ۱۴، ۲۱ اور ۲۸ تاریخوں کو پڑا تھا۔ ادھر صحیح روایات سے یہ بات ثابت اور معین ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور ان ہی طاق راتوں میں منلفر بھی ہوتی رہتی ہے۔ اب ہم ایک طر ف اللہ تعالیٰ کا ارشاد دیکھتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو لیلتہ القدر میں نازل کیا، دوسری طرف ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو شنبہ کے روز مبعوث فرمایا گیا، تیسری طرف تقویم کا حساب دیکھتے ہیں کہ اس سال رمضان میں دو شنبہ کا دن کن کن تاریخوں میں پڑا تھا تو متعین ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اکیسویں رمضان کی رات میں ہوئی۔ اس لیے یہی نزولِ وحی کی پہلی تاریخ ہے۔