کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 726
پیش آیا اور اس کے بعد پھر کبھی غلط ارادہ نہ ہوا۔[1]
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عباس (رض) پتھر ڈھو رہے تھے۔ حضرت عباس (رض) نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: اپنا تہبند اپنے کاندھے پر رکھ لو۔ پتھر سے حفاظت رہے گی، لیکن جونہی آپ (ص) نے ایسا کیا آپ (ص) زمین پر جا گرے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔ افاقہ ہوتے ہی آواز لگائی: میرا تہبند ۔ میرا تہبند اور آپ کا تہبند آپ کو باندھ دیا گیا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کے بعد آپ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی گئی۔ [2]
نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم میں شیریں کردار، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ چنانچہ آپ سب سے زیادہ با مروت، سب سے خوش اخلاق، سب سے معزز ہمسایہ، سب سے بڑھ کر دور اندیش، سب سے زیادہ راست گو، سب سے نرم پہلو، سب سے زیادہ پاک نفس، خیر میں سب سے زیادہ کریم، سب سے نیک عمل، سب سے بڑھ کر پابندِ عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے، حتٰی کہ آپ کی قوم نے آپ کا نام ہی “امین“ رکھ دیا تھا کیونکہ آپ احوالِ صالحہ اور خصالِ حمیدہ کا پیکر تھے۔ اور جیسا کہ حضرت خدیجہ کی شہادت ہے “ آپ صلی اللہ علیہ و سلم درماندوں کا بوجھ اٹھاتے تھے، تہی دستوں کا بندوبست فرماتے تھے، مہمان کی میزبانی کرتے تھے اور مصائبِ حق میں اعانت فرماتے تھے“۔[3]
٭٭٭