کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 725
وسیلہ و مقصد کی درستگی سے حَظِ وافر عطا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور خوض، دائمی تفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور جن خرافات میں یہ سب لت پت تھیں ان سے سخت بیزاری محسوس کی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سب سے دامن کش رہتے ہوئے پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندگی کا سفر طے کیا یعنی لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف پلٹ جاتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا، آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے لیے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی ہی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ گھی حتٰی کہ لات و عُزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا۔ [1] اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر نے آپ پر حفاظت کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ چنانچہ جب بعض دنیاوی تمتعات کے حصول کے لیے نفس کے جذبات متحرک ہوئے یا بعض نا پسندیدہ رسم و رواج کی پیروی پر طبیعت آمادہ ہوئی تو عنایتِ ربانی دخیل ہو کر رکاوٹ بن گئی۔ ابنِ اثیر کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: “اہلِ جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گذرا لیکن ان دونوں میں سے بھی ہر دفعہ اللہ تعالٰی نے میرے اور اس کام کے درمیان رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس کا خیال نہ گذرا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے پیغمبری سے مشرف فرما دیا۔ ہوا یہ کہ جو لڑکہ بالائی مکہ میں میرے ساتھ بکریاں چرایا کرتا تھا اس سے ایک رات میں نے کہا: کیوں نہ تم میری بکریاں دیکھو اور میں مکہ میں جا کر دوسرے جوانوں کی طرح وہاں کی شبانہ قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کر لوں! اس نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا فلاں کی فلاں سے شادی ہے۔ میں سننے بیٹھ گیا اور اللہ نے میرا کان بند کر دیا اور میں سو گیا۔ پھر سورج کی تمازت ہی سے میری آنکھ کھلی اور میں اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھر اسی رات کی طرح کا واقعہ