کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 716
تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی۔ بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ میں اپنی گدھی پر سوار ہوکر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔ خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے۔ پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی۔ کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ووہش کی امید رکھتے تھے۔ ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے۔ بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں ، بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو لینا نہیں چاہتے تھے۔ ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا۔ جب واپسی کی باری آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا: اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے لے کر جائیں اور تنہا مَیں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں۔ میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔ شوہر نے کہا: کوئی حرج نہیں ! ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔ اس کے بعد میں نے جاکر بچہ لے لیا اور محض اس بناء پر لے لیا کہ کوئی اور بچہ نہ مل سکا۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو اس نے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے اور اس نے شکم سیر ہوکر پیا۔ اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا، پھر دونوں سوگئے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے، انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری۔ ان کا بیان ہے کہ صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا : حلیمہ ! اللہ کی قسم ! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔ میں نے کہا : مجھے بھی یہی توقع ہے۔ حلیمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا۔ یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں: او ! ابو ذویب کی بیٹی ! ارے یہ کیا ہے ؟ ذراہم پر مہربانی کر۔ آخریہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی ؟ میں کہتی : ہاں ہاں ! اللہ کی قسم یہ وہی ہے، وہ کہتیں۔ اس کا يقيناً کوئی خاص معاملہ ہے۔