کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 712
وہ بچاؤ کرنے کے قابل ہو گئے، تو عبدالمطلب نے انہیں اپنی نذر سے آگاہ کیا۔سب نے بات مان لی۔اس کے بعد عبدالمطلب نے قسمت کے تیروں پر ان سب کے نام لکھے۔اور ہُُبَل کے قیم کے حوالے کیا۔قیم نے تیروں کو گردش دے کر قرعہ نکالا تو عبداللہ کا نام نکلا۔عبدالمطلب نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا چھری لی اور ذبح کرنے کے لئے خانہ کعبہ کے پاس لے گئے، لیکن قریش اور خصوصاً عبداللہ کے ننہیال والے یعنی بنو مخزوم اور عبد اللہ کے بھائی ابو طالب آڑے آئے۔ عبدالمطلب نے کہا تب مین اپنی نذر کا کیا کروں؟انہوں نے مشورہ دیا کے وہ کسی خاتون عٌرافہ کے پاس جا کر حل دریافت کریں۔ عبدالمطلب ایک عرٌافہ کے پاس گئے۔اس نے کہا کہ عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کریں اگر عبداللہ کے نام قرعہ نکلے تو مزید دس اونٹ بڑھا دیں۔اس طرح اونٹ بڑھاتے جائیں اور قرعہ اندازی کرتے جائیں، یہاں تک کہ اللہ راضی ہو جائے۔پھر اونٹوں کے نام قرعہ نکل آئے تو انہیں ذبح کر دیں۔عبد المطلب نے واپس آکر عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی مگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلا۔ اس کے بعد دس دس اونٹ بڑھاتے گئے اور قرعہ اندازی کرتے گئے مگر قرعہ عبداللہ کے نام ہی نکلتا رہا۔جب سو اونٹ پورے ہو گئے تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔اب عبدالمطلب نے انہیں عبداللہ کے بدلے ذبح کیا اور وہیں چھوڑ دیا۔کسی انسان یا درندے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔اس واقعے سے پہلے قریش اور عرب میں خون بہا(دیت) کی مقدار دس اونٹ تھی مگر اس واقعے کے بعد 100 سو اونٹ کر دی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد مروی ہے کہ میں دو ذبیح کی اولاد ہوں، ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبد الله ۔[1] عبدالمطلب نے اپنے صاحبزادے عبداللہ کی شادی کے لئے حضرت آمنہ کا انتخاب کیا جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب اور رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔انکے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعد عبداللہ کو عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔