کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 704
پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ ا ور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔ ‘‘
ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا ، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ ﴿وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا ﴾ (البقره۲: ۲۱۹ ) ’’ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ ‘‘
2۔وفائے عہد:…یہ بھی دَورِ جاہلیت کے اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اوّلاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہانیٔ بن مسعود شیبانی، سموأل بن عادیا اور حاجب بن زرارہ کے واقعات کافی ہیں
3۔ خودداری وعزتِ نفس:_____اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی، وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی ، شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔
4۔ عزائم کی تنفیذ: …اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔
5۔ حلْم وبردباری اور سنجیدگی: …یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی ، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔
6۔بدوی سادگی: _____یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری وبدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جزیرۃُ العرب کو ساری دنیا سے جو جغرافیائی نسبت حاصل تھی اس کے علاوہ یہی وہ قیمتی اخلاق تھے جن کی وجہ سے اہل عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور رسالتِ عامہ کابوجھ اُٹھانے