کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 701
زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستثنیٰ نہ تھی ، البتہ کچھ مرد اور عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا، اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ اہلِ جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ !فلاں میرا بیٹا ہے ، میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں، جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زَمْعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے___عبد الرحمن بن زمعہ_______کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔ [1] جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا ، کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے : انما أولادنا بیننا أکبادنا تمشی علی الأرض ’’ہماری اولاد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔‘‘ لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو فقروفاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ [2]لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے دشمن سے حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اوّلاد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔ جہاں تک سگے بھائیوں، چچیرے بھائیوں، اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور مضبوط تھے۔ کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرماہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل پیرا تھے کہ ((انصر أخاک ظالمًا