کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 697
اور فاتحین کے ذریعے ہوئی ۔ ہم بتا چکے ہیں کہ یمن پر حبشیوں کا قبضہ پہلی بار 340 میں ہوا ۔ اور 378 تک برقرار رہا۔ اس دوران یمن میں مسیحی مشن کام کرتا رہا۔ تقریباً اسی زمانے میں ایک مستجاب الدعوات اور صاحبِ کرامات زاہد جس کا نام فیمیون تھا، نَجْران پہنچا اور وہاں کے باشندوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کی۔ اہل نجران نے اس کی اور اس کے دین کی سچائی کی کچھ ایسی علامات دیکھیں کہ وہ عیسائیت کے حلقہ بگوش ہو گئے۔[1]
پھر ذونواس کی کاروائی کے رَدِّعمل کے طور پر حبشیوں نے دوبارہ یمن پر قبضہ کیا اور اَبْرہَہَ نے حکومتِ یمن کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی تو اس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بڑے پیمانے پر عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس جوش وخروش کا نتیجہ تھا کہ اس نے یمن میں ایک کعبہ تعمیر کیا اور کوشش کی کہ اہلِ عرب کو (مکہ اور بیت اللہ سے) روک کر اسی کا حج کرائے۔ اور مکہ کے بیت اللہ شریف کو ڈھا دے۔ لیکن اس کی اس جرأت پر اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی سزا دی کہ اولین و آخرین کے لیے عبرت بن گیا۔
دوسری طرف رومی علاقوں کی ہمسائیگی کے سبب آل، غَساّن، بنو تَغْلب اور بنو طَیْ وغیرہ قبائل عرب میں بھی عیسائیت پھیل گئی تھی۔ بلکہ حِیْرہ کے بعض عرب بادشاہوں نے بھی عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔
جہاں تک مجوسی مذہب کا تعلق ہے تو اسے زیادہ تر اہلِ فارس کے ہمسایہ عربوں میں فروغ حاصل ہوا تھا۔ مثلا عراق عرب، بحرین، (الاحساء) حجر اور خلیج عربی کے ساحلی علاقے۔ ان کے علاوہ یمن پر فارسی قبضے کے دوران وہاں بھی اکّا دکّا افراد نے مجوسیت قبول کی۔
باقی رہا صابی مذہب تو عراق وغیرہ کے آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کلدانی قوم کا مذہب تھا۔ دورِ قدیم میں شام و یمن کے بہت سے باشندے بھی اسی مذہب کے پَیْروَ تھے، لیکن جب یہودیت اور پھر عیسائیت کا دَور دَورہ ہوا تو اس مذہب کی بنیادیں ہل گئیں اور اس کی شمعِ فروزاں گل ہو رہ گئی۔ تاہم مجوس کے ساتھ خلط ملط ہو کر یا ان کے پڑوس میں عراق اور خلیج عربی کے ساحل پر اس مذہب کے کچھ نہ کچھ پَیرو کار باقی رہے ۔ [2]