کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 696
جب فسطین میں بابل اور آشُوْر کی حکومت کے سبب یہودیوں کو ترکِ وطن کرنا پڑا۔ اس حکومت کی سخت گیری اور بُختِ نصر کے ہاتھوں یہودی بستیوں کی تباہی و ویرانی ان کے ہَیکل کی بربادی اور ان کی اکثریت کی ملک بابل کو جلا وطنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہود کی ایک جماعت فلسطین چھوڑ کر حجاز کے شمالی اطراف میں آ بسی۔ [1]
دوسرا دَوْر اُس وقت شروع ہوتا ہے جب ٹائیٹس رومی کی زیرِ قیادت 70ء میں رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ اس موقع پر رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی داروگیر اور ان کے ہیکل کی بربادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد یہودی قبیلے حجاز بھاگ آئے اور یَثْرِب، خَیْبَر اور تَیْماء میں آباد ہو کر یہاں اپنی باقاعدہ بستیاں بسا لیں اور قلعے گڑھیاں تعمیر کر لیں۔ ان تارکینِ وطن یہود کے ذریعے عرب باشندوں میں کسی قدر یہودی مذہب کا بھی رواج ہوا اور اسے بھی ظہورِ اسلام سے پہلے اور اس کے ابتدائی دور کے سیاسی حوادث میں ایک قابلِ ذکر حیثیت حاصل ہو گئی۔ ظہورِ اسلام کے وقت مشہور یہودی قبائل یہ تھے۔ خَیْبَر، مُصْلَق، قُرَیْظَہ اور قَینُقاع۔ سَمْہوُدِی نے وفاء الوفا صفحہ 116 میں ذکر کیا ہے کہ یہود قبائل کی تعداد بیس سے زیادہ تھی ۔[2]
یہودیت کو یمن میں بھی فروغ حاصل ہوا۔ یہاں اس کے پھیلنے کا سبب تبان اسعد ابو کرب تھا۔ یہ شخص جنگ کرتا ہوا یثرب پہنچا۔ وہاں یہودیت قبول کر لی اور بنو قُریظہ کے دو یہودی علماء کو اپنے ساتھ یمن لے آیا اور ان کے ذریعے یہودیت کو یمن میں وسعت اور پھیلاؤ حاصل ہوا۔ ابو کرب کے بعد اس کا بیٹا یوسف ذونو اس یمن کا حاکم ہوا تو اس نے یہودیت کے جوش میں نَجْران کے عیسائیوں پر ہلہ بول دیا اور انہیں مجبور کیا کہ کہ یہودیت قبول کریں، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر ذونواس نے خندق کھدوائی اور اس میں آگ جلوا کر بوڑھے، بچے مرد و عورت سب کو بلاتمیز آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد بیس سے چالیس ہزار کے درمیان تھی۔ یہ اکتوبر 533 کا واقعہ ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ بروج میں اسی واقع کا ذکر کیا ہے ۔[3]
جہاں تک عیسائی مذہب کا تعلق ہے تو بلادِ عرب میں اس کی آمد حبشی اور رومی قبضہ گیروں