کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 695
ہوں اور نہ یہ درست ہے کہ سایہ حاصل کرنا ہو تو چمڑے کے خیمے کے سوا کہیں اور سایہ حاصل کریں۔ [1] ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ بیرونِ حرم کے باشندے حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور بیرونِ حرم سے کھانے کی کوئی چیز لے کر آئیں تو اسے ان کے لیے کھانا درست نہیں۔[2] ایک بدعت یہ بھی تھی کہ انہوں نے بیرونِ حرم کےباشندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ حرم میں آنے کے بعد پہلا طواف حمس سے حاصل کیے ہوئے کپڑوں میں ہی کریں۔ چنانچہ اگر ان کا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو مرد ننگے طواف کرتے۔ اور عورتیں اپنے سارے کپڑے اتار کر کر صرف ایک چھوٹا سا کھلا ہوا کرتا پہن لیتیں۔ اور اسی میں طواف کرتیں اور دوران طواف یہ شعر پڑھتی جاتیں: اَلْیَوْمَ یَبْدُوْ بَعْضُہ اَو کُلُّہ وَمَا بَدَا مِنْہُ فَلَا احِلُّہ ’’آج کچھ یا کُل شرمگاہ کھل جائے گی۔ لیکن جو کچھ کُھل جائے میں اسے (دیکھنا) حلال قرار نہیں دیتی۔‘‘ اللہ تعالٰی نے اس خرافات کے خاتمے کےلیے فرمایا: ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [/﴾(الاعراف7: 31) ’’اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کر لیا کرو۔‘‘ بہرحال اگر کوئی عورت یا مرد برتر اور معزز بن کر بیرون حرم سے لائے ہوئے اپنے ہی کپڑوں میں طواف کر لیتا تو طواف کے بعد ان کپڑوں کو پھینک دیتا، ان سے خود فائدہ اٹھاتا نہ کوئی اور۔ [3] قریش کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ حالتِ احرام میں گھر کے اندر دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے بلکہ گھر کے پچھواڑے ایک بڑا سوراخ بنا لیتے اور اسی سے آتے جاتے تھے اورا پنے اس اُجڈ پنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ قرآن کریم نے اس سے بھی منع فرمایا۔ (البقرہ 189:2) یہی دین یعنی شرک و بُت پرستی اور توہمات و خرافات پر مبنی عقیدہ و عمل والا دین عام اہل عرب کا دین تھا۔ اس کے علاوہ جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں یہودیت، مسیحیت، مجوسیت اور صابئیت نے بھی دَرْ آنے کی مواقع پا لیے تھے۔ لہذا ان کا تاریخی خاکہ بھی مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔ جزیرۃ العرب میں یہود کے کم از کم دو اَدْوار ہیں۔ پہلا دور اس وقت سے تعلق رکھتا ہے