کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 693
تو حلیف قرار پاتا اور یہ نکلتا کہ "ملحق"ہے تو ان کے اندر اپنی حیثیت پر برقرار رہتا، نہ قبیلے کا فرد مانا جاتا نہ حلیف۔[1] اسی سے ملتا جلتا ایک رواج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوئے کے تیر استعمال کرنے کا تھا۔ اسی تیر کی نشاندہی پر وہ جوئے کا اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے۔[2] مشرکین عرب کاہنوں، عرافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ کاہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرے اور راز ہائے سر بستہ سے واقفیت کا دعویدار ہو۔ بعض کاہنوں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایک جِن ان کے تابع ہے جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے، اور بعض کاہن کہتے تھے کہ انہیں ایسا فہم عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ غیب کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جوآدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اس کے قول و فعل سے یا اس کی حالت سے، کچھ مقدمات اور اسباب کے ذریعے وہ جائے واردات کا پتا لگا لیتے ہیں۔ اس قسم کے آدمی کو عراف کہا جاتا تھا۔مثلا وہ شخص جو چوری کےمال، چوری کی جگہ اور گم شدہ جانور وغیرہ کا پتا ٹھکانا بتاتا۔ نجومی اسے کہتے ہیں جو تاروں پر غور کرکے اور ان کی رفتارو اوقات کا حساب لگا کر پتا لگاتا ہے کہ دنیا مین آئندہ کیا حالات و واقعات پیش آئیں گے ۔[3] ان نجومیوں کی خبروں کو ماننا درحقیقت تاروں پر ایمان لانا ہےاور تاروں پر ایمان لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مشرکین عرب نچْھتَّروں پر ایمان رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے۔ [4] مشرکین میں بدشگونی کا بھی رواج تھا۔ اسے عربی میں طیِرَۃَ کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کسی چڑیا یا ہرن کے پاس جا کر اسے بھگاتے تھے۔ پھر اگر وہ داہنے جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گزرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اسے نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے۔ اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور راستہ کاٹ دیتا تو اسے بھی منحوس سمجھتے۔