کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 692
حضرت سعید بن مُسَیَّبْ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے ۔[1] اور صحیح بخاری میں مرفوعا مروی ہے کہ عمرو بن لحَی پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑے ۔ [2]
عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰهِ زُلْفَى﴾ (الزمر39: 3)
’’ہم ان کی عبادت محض اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔‘‘
﴿وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ﴾ (یونس10: 18)
’’یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچا سکیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘
مشرکین عرب اَزْلام یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے۔ (اَزْلام، زَلَم کی جمع ہے۔ اور َزلم اس تیر کو کہتے ہیں جس میں پَر نہ لگے ہوں) فال گیری کے لیے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے۔ ایک وہ جن پر صرف "ہاں" یا "نہیں" لکھا ہوتا تھا۔ اس قسم کے تیر سفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ اگر فال میں "ہاں" نکلتا تو مطلوبہ کام کر ڈالا جاتا اگر"نہیں" نکلتا تو سال بھر کے لیےملتوی کر دیا جاتا اور آئندہ پھر فال نکالی جاتی۔
فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دِیَتْ وغیرہ درج ہوتے تھے اور تیسری قسم وہ تھی جس پر یہ درج ہوتا تھاکہ "تم میں سے ہے" یا"تمہارے علاوہ سے ہے" یا "ملحق" ہے۔ ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہہ ہوتا تو اسے ایک سو اونٹوں سمیت ہبل کے پاس لے جاتے۔ اونٹوں کو تیر والے مَہَنْت کے حوالے کر دیتے اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملا کر گھماتا جھنجھوڑتا، پھر ایک تیر نکالتا۔ اب اگر یہ نکلتا کہ’’تم میں سے ہے‘‘۔تو وہ ان کے قبیلے کا ایک معزز فرد قرار پاتا اور اگر یہ برآمد ہوتا کہ ’’تمہارے غیر سے ہے‘‘