کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 691
نہ پیتا۔ یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے۔
وصیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے دَرپے دودو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس بار مادہ بچے پیدا ہوتے) درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے۔
حَامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جسکی جُفْتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔ دورِ جاہلیت کی بُت پرستی کے ان طریقوں کی تردیدکرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:
﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾( المعائدہ5: 103)
’’اللہ نے نہ کوئی بحیرہ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔‘‘
ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ﴾( الانعام6: 139)
’’ان (مشرکین) نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مَردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ البتہ اگر وہ مردہ ہو تو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں۔‘‘
چوپایوں کی مذکورہ اقسام یعنی بحیرہ، سائبہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کیے گئے ہیں [1] جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں۔