کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 689
لے گئے۔ اس طرح ہرہر قبیلے میں ، پھر ہرہر گھر میں ایک ایک بت ہو گیا۔ پھر مشرکین نے مسجد حرام کو بھی بتوں سے بھر دیا چنانچہ جب مکہ فتح کیا گیا تو بیت اللہ کے گردا گرد تین سوساٹھ بت تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے توڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کو چھڑی سے ٹویکرمارتے جاتے تھے اور وہ گرتا جاتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلا دیا گیا۔ [1] غرض شرک اور بت پرستی اہلِ جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن گئی تھی۔ جنہیں گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں۔ پھر اہلِ جاہلیت کے یہاں بت پرستی کے کچھ خاص طریقے اور مراسم بھی رائج تھے جو زیادہ ترعمرو بن لحَی کی اختراع تھے۔ اہلِ جاہلیت سمجھتے تھے کہ عمرو بن لحَی کی اختراعات دین ابراہیمی میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعتِ حسنہ ہیں۔ ذیل میں ہم اہلِ جاہلیت کے اندر رائج بت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کر رہے ہیں: 1۔ دورِ جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، انہیں زور زور سے پُکارتے تھے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔ 2۔ بتوں کا طواف و حج کرتے تھے، ان کے سامنے عجزونیازسے پیش آتے تھے اور انہیں سجدہ کرتے تھے۔ 3۔ بتوں کے لیے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے اور قربانی کےان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لیجا کر ذبح کرتے تھے اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے مگر بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالٰی نے قرآن مجیدمیں کیا ہے۔ ارشاد ہے:وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ۔( المعائدہ 5: 3) یعنی "وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں"۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿ وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ ﴾( الانعام6: 121) یعنی "اس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔" 4۔ بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صوابدید کے مطابق اپنے کھانے پینے