کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 687
بلکہ ضروری تھا کہ طرح طرح کی ذلت و رسوائی اور ظلم و چیرہ دستی برداشت کریں اور زبان بند رکھیں۔ کیونکہ جبرواستبداد کی حکمرانی تھیاور انسانی حقوق نام کی کسی چیز کا کہیں کوئی وجود نہ تھا۔ ان علاقوں کے پڑوس میں رہنے والے قبائل تذبذب کا شکار تھے ۔ انہیں اغراض و خواہشات ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر پھینکتی رہتی تھیں۔ کبھی وہ عراقیوں کے ہمنوا ہو جاتے تھے اور کبھی شامیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔
جو قبائل اندرون عرب آباد تھے ان کے بھی جوڑ ڈھیلے اور شیرازہ منتشر تھا۔ ہر طرف قبائلی جھگڑوں، نسلی فسادات اور مذہبی اختلافات کی گرم بازاری تھی، جس میں ہر قبیلے کے قفراد بہرصورت اپنے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے تھے خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ چنانچہ ان کا ترجمان کہتا ہے۔
وما انا الامن غزیۃ ان اغوت غویت وان ترشد غزیۃ ارشد
’’ میں بھی تو قبیلہ غزیہ کا ایک فرد ہوں ، اگر وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی غلط راہ پر چلوں گا، اور اگر وہ صحیح راہ پر چلے گا تو میں بھی صحیح راہ پر چلوں گا۔‘‘
اندرون عرب کوئی بادشاہ نہ تھا جو ان کی آواز کو قوت پہنچاتا اور نہ کوئی مرجع ہی تھا جسکی طرف مشکلات و شدائد میں رجوع کیا جاتا اور جس پر وقت پڑنے پر اعتماد کیا جاتا۔
ہاں حجاز کی حکومت کو قدرواحترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے مرکز دین کا قائدو پاسبان بھی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ حکومت درحقیقت ایک طرح کی دینوی قیادت اور دینی پیشوائی کا معجون و مرکّب تھی۔ اسے اہل عرب پر اپنی دینی پیشوائی کے نام سے بالا دستی حاصل تھی اور حرم اور اطرافِ حرم پر اس کی باقاعدہ حکمرانی تھی۔وہی زئرین بیت اللہ کی ضروریات کا انتطام اور شریعت ابراہیمی کے احکام کا نفاذ کرتی تھی۔ اور اس کے پاس پارلیمانی اداروں جیسے ادارے اور تشکیلات بھی تھیں۔ لیکن یہ حکومت اتنی کمزور تھی کہ اندرون عرب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی جیسا کہ حبشیوں کے حملے کہ موقع پر ظاہر ہوا۔
٭٭٭