کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 683
کا دینی سربراہ بن گیا جس کی زیارت کےلئے عرب کے گوشے گوشے سے آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ مکہ پر قصّیٰ کے تسلّط کا یہ واقعہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط یعنی سنہ 440 کا ہے۔[1] قصّیٰ نے مکہ کا بندوبست اس طرح کیا کہ قریش کو اطراف مکہ سے بلا کر پورا شہر ان پر تقسیم کر دیا اور ہر خاندان کی بودوباش کا ٹھکانا مقرر کر دیا۔ البتہ مہینے آگے پیچھے کرنے والوں کو، نیز آل صفوان بنو عددان اور بنو مرہ بن عوف کو ان کے مناصب پر برقرار رکھا کیونکہ قصّیٰ سمجھتا تھا کہ یہ بھی دین ہے جس میں ردّوبدل کرنا درست نہیں۔ [2] قصّّیٰ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے حرم کعبہ کے شمال میں دارالندوہ تعمیر کیا۔ ( اسکا دروازہ مسجد کی طرف تھا) دارالندوہ دراصل قریش کی پارلیمنٹ تھی جہاں تمام بڑے بڑے اور اہم معاملات کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ قریش پر دارالندوہ کے بڑے احسانات ہیں کیونکہ یہ ان کی وحدت کا ضامن تھا اور یہیں انکے الجھے ہوئے مسائل بحسن و خوبی طے ہوتے تھے۔ [3] قصّیٰ کو سربراہی اور عظمت کے حسب ذیل مظاہر حاصل تھے: 1۔ دارالندوہ کی صدارت: جہاں بڑے بڑے معاملات کے متعلق مشورے ہوتے تھے اور جہاں لوگ اپنی لڑکیوں کی شادیاں بھی کرتے تھے۔ 2۔ لَواء۔ یعنی جنگ کا پرچم قصّیٰ ہی کے ہاتھوں باندھا جاتا تھا۔ 3۔حجابت: یعنی خانہ کعبہ کی پاسبانی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کا دروازہ قصیٰ ہی کھولتا تھا اور وہی خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید برداری کا کام انجام دیتا تھا۔ 4۔ سقایہ: (پانی پلانا) اس کی صورت یہ تھی کہ کچھ حوض میں حاجیوں کیلئے پانی بھر دیا جاتا تھا اور اس میں کچھ کھجور اور کشمش ڈال کر اسے شیریں بنا دیا جاتا تھا، جب حجّاج مکہ آتے تھے تو اسے پیتے تھے۔ [4] 5۔ رِفادہ: (حاجیوں کی میزبانی)_____ اس کے معنی یہ ہیں کہ حاجیوں کیلئے بطور ضیافت کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کیلئے قصیٰ نے قریش پر ایک خاص رقم مقرر کر رکھی تھی ، جو موسم حج میں قصیٰ کے پاس جمع کی جاتی تھی۔ قصیٰ اسی رقم سے حاجیوں کیلئے کھانا تیار کراتا تھاجو لوگ