کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 682
اور بنو خزاعہ کے کچھ لوگوں سے گفتگو کی کہ کیوں نہ بنو خزاعہ اور بنوبکر کو مکہ سے نکال باہر کیا جائے۔ان لوگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔[1]
دوسرا بیان یہ ہے کہ ___ خزاعہ کے بقول ____ خود خلیل نے قصّیٰ کو وصیت کی تھی کہ وہ کنبہ کی نگہداشت کرے گا اور مکہ کی باگ ڈور سنبھالے گا۔[2]
تیسرا بیان یہ ہے کہ خلیل نے اپنی بیٹی حبی کو بیت اللہ کی توّلیت سونپی تھی اور ابوغبشان خزاعی کو اسکا وکیل بنایا تھا۔ چنانچہ حبی کے نائب کی حیثیت سے وہی خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا۔ جب خلیل کا نتقال ہو گیا تو قصّیٰ نے ابو غشبان سے ایک مشک شراب کے بدلے کعبہ کی تولیت خرید لی لیکن خزاعہ نے یہ خرید و فروخت منظور نہ کی اور قصّیٰ کو بیت اللہ سے روکنا چاہا۔ اس پر قصّیٰ نے بنو خزاعہ کو مکہ سے نکالنے کیلئے قریش اور بنو کنانہ کو جمع کیا اور قصّیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے۔ [3]
بہرحال وجہ جو بھی ہو، واقعات کا سلسلہ اس طرح ہے کہ جب خلیل کا انتقال ہو گیا، اور صوفہ نے وہی کرنا چاہا جو وہ ہمیشہ کرتے آئے تھے تو قصّیٰ نے قریش اور کنانہ کے لوگوں کو ہمراہ لیا اور عقبہ کے نزدیک جہاں وہ جمع تھے ان سے آکر کہا کہ تم سے زیادہ ہم اس کے حقدار ہیں۔ اس پر صوفہ نے لڑائی چھیڑ دی مگر قصّیٰ نے انہیں مغلوب کرکے ان کا اعزاز چھین لیا۔یہی موقع تھا جب خزاعہ اور بنوبکر نے قصّیٰ سے دامن کشی اختیار کرلی۔ اس پر قصّیٰ نے انہیں بھی للکارا، پھر کیا تھا فریقین میں سخت جنگ چھڑ گئی اور طرفین کے بہت سے آدمی مارے گئے، اس کے بعد صلح کی آوازیں بلند ہوئیں اور بنو بکر کے ایک شخص یعمر بن عوف کو حکم بنایا گیا۔ یعمر نے فیصلہ کیا کہ خزاعہ کے بجائے قصّیٰ خانہ کعبی کی توّلیت اور مکہ کے اقتدار کا نزیادہ حقدار ہے۔نیز قصّیٰ نے جتنا خون بہایا ہے سب رائیگاں قرار دے کر پاؤں تلے روند رہا ہوں۔ البتہ خزاعہ اور بنوبکر نے جن لوگوں کو قتل کیا ہے ان کی دیت ادا کریں اور خانہ کعبہ کو بلا روک ٹوک قصّیٰ کے حوالے کردیں_____ اسی فیصلے کی وجہ سے یعمر کا لقب شدّاخ [4] پڑ گیا۔ شدّاخ کے معنی ہیں پاؤں تلے روندنے والا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں قصّیٰ اور قریش کو مکہ پر مکمل نفوذ اور سیادت حاصل ہو گئی اور قصّیٰ بیت اللہ