کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 681
روانگی کا ارادہ کرتے تو صوفہ کے لوگ منیٰ کی واحد گزرگاہ عقبہ کے دونوں جانب گھیرا ڈال کر کھڑے ہو جاتے اور جب تک خود گزر نہ لیتے کسی کو گزرنے نہ دیتے۔ ان کے گزر لینے کے بعد بقیہ لوگوں کےلئے راستہ خالی ہوتا۔ جب صوفہ ختم ہو گئے تو یہ اعزاز بنو تمیم کے ایک خآندان بنو سعد بن زید مناۃ کی طرف منتقل ہو گیا۔
2۔ 10 ذی الحج کی صبح کو مزدلفہ سے منیٰ کی جانب افاضہ (روانگی) یہ اعزاز بنو عدوان کو حاصل تھا۔
3۔ حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا۔ یہ اعزاز بنو کنانہ کی ایک شاخ بنو تمیم بن عدی کو حاصل تھا۔[1]
مکہ پر بنو خزاعہ کا اقتدار کوئی تین سو برس تک قائم رہا۔ [2]اور یہی زمانہ تھا جب عدنانی قبائل مکہ اور حجاز سے نکل کر نجد، اطراف عراق، اور بحرین وغیرہ میں پھیلے اور مکہ کے اطراف میں صرف قریش کی چند شاخیں باقی رہیں جو خانہ بدوش تھیں۔ ان کی الگ الگ ٹولیاں تھیں، اور بنو کنانہ میں ان کے چند متفرق گھرانے تھے مگر مکہ کی حکومت اور بیت اللہ کی توّلیت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ قصّٰی بن کلاب کا ظہور ہوا۔[3]
قصّیٰ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ابھی گود ہی میں تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد اس کی والدہ نے بنو عذرہ کے ایک شخص ربیعہ بن حرام سے شادی کرلی۔ یہ قبیلہ کیونکہ ملک شام کے اطراف میں رہتا تھا اس لئے قصیٰ کی والدہ وہیں چلی گئی اور وہ قصّیٰ کو بھی اپنے ساتھ لیتی گئی۔ جب قصّیٰ جوان ہوا تو مکہ واپس آیا ۔ اس وقت مکہ کا والی خلیل بن حبشیہ خزاعی تھا۔ قصّیٰ نے اس کے پاس اس کی بیٹی حبی سے نکاح کا پیغآم بھیجا ۔ خلیل نے منظور کر لیا اور شادی کردی۔ [4] اس کے بعد جب خلیل کا نتقال ہوا تو مکہ اور بیت اللہ کی توّلیت کیلئے خزاعہ اور قریش کے درمیان جنگ ہو گئی اور اس کے نتیجے میں مکہ اور بیت اللہ پر قصّیٰ کا اقتدار قائم ہو گیا۔
جنگ کا سبب کیا تھا؟ اس بارے میں تین بیانات ملتے ہیں: ایک یہ کہ جب قصّیٰ کی اولاد خوب پھل پھول گئی اس کے پاس دولت کی فراوانی بھی ہو گئی اور اس کا وقار بھی بڑھ گیا اور ادھر خلیل کا انتقال بھی ہو گیا تو قصّیٰ نے محسوس کیا کہ اب بنو خزاعہ اور بنوبکر کے بجائے میں کعبہ کی توّلیت اور مکہ کی حکومت کا کہیں زیادہ حقدار ہوں۔ اسے یہ بھی احساس بھی تھا کہ قریش خالص اسماعیلی عرب ہیں اور بقیہ آل اسماعیل کے سردار بھی ہیں (لہٰذا سربراہی کے مستحق بھی وہی ہیں) چنانچہ اس نے قریش