کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 677
ہو گیا اور طوائف الملوکی شروع ہوگئی۔ یہ انتشار ۲۳۰ء تک جاری رہا اور اسی دوران قحطانی قبائل نے ترک وطن کر کے عراق کے ایک بہت بڑے شاداب سرحدی علاقے پر بود و باش اختیار کی۔ پھر عدنانی تارکین وطن کا ریلا آیا اور انھوں نے لَڑ بِھڑ کر جزیرۂ فراتیہ کے ایک حصے کو اپنا مسکن بنا لیا۔
ادھر ۲۲۶ ء میں ارد شیر نے جب ساسانی حکومت کی داغ بیل ڈالی تو رفتہ رفتہ فارسیوں کی طاقت ایک بار پھر پلٹ آئی۔ ارد شیر نے فارسیوں کی شیرازہ بندی کی اور اپنے ملک کی سرحد پر آباد عربوں کو زیر کیا۔ اسی کے نتیجے میں قضاعہ نے ملک شام کی راہ لی ، جبکہ حِیرہ اور انبار کے عرب باشندوں نے باجگذار بننا گوارا کیا۔
اردشیر کے عہد میں حیرہ ، بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعی اور مُضری قبائل پر جذیمۃالوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اَرد شیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے باز رکھنا ممکن نہیں۔ بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنادیا جائے جسے اپنے کنبے قبیلے کی حمایت وتائید حاصل ہو۔ اس کا ایک فائد ہ یہ بھی ہوگا کہ بوقت ضرورت رومیوں کے خلاف ان سے مدد لی جاس کے گی اور شام کے روم نواز عرب حکمرانوں کے مقابل عراق کے ان عرب حکمرانوں کو کھڑا کیا جاس کے گا۔
شاہانِ حیرہ کے پاس فارسی فوج کی ایک یونٹ ہمیشہ رہا کرتی تھی ، جس سے بادیہ نشین عرب باغیوں کی سرکوبی کا کام لیا جاتا تھا۔
۲۶۸ ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عَمرو بن عَدی بن نصر لَخمی ( ۲۶۸ ء ۔ ۲۸۸ ء ) اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلۂ لخم کا پہلا حکمران تھا اور شاپور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذ بن فیروز ( ۴۴۸ ء …۵۳۱ ء )کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی رہی۔ قباذ کے عہد میں مُزدَک کا ظہور ہوا۔ جو اباحیت کا علمبردار تھا۔ قباذ اور اس کی بہت سی رعایا نے مُزدَک کی ہمنوائی کی۔ پھر قباذ نے حیرہ کے بادشاہ منذر بن ماء السماء ( ۵۱۳ ء ۔ ۵۵۴ ء ) کو پیغام بھیجا کہ تم بھی یہی مذہب اختیار کر لو۔ منذر بڑا غیرت مند تھا انکار کر بیٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قباذ نے اسے معزول کرکے اس کی جگہ مُزدَک کی دعوت کے ایک پیر وکار حارث بن عمرو بن حجر کِندی کو حِیرہ کی حکمرانی سونپ دی۔
قباذ کے بعد فارس کی باگ دوڑ کسریٰ نوشیرواں ( ۵۳۱ ء۔ ۵۷۸ ء ) کے ہاتھ آئی۔ اسے اس مذہب سے سخت نفرت تھی۔ اس نے مُزدَک اور اس کے ہمنواؤو ں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کروادیا۔ منذر کو دوبارہ حیرہ کا حکمران بنادیا اور حارث بن عمرو کو اپنے ہاں بلا بھیجا لیکن وہ بنو کلب کے علاقے میں بھاگ گیا اور وہیں اپنی زندگی گزار دی۔