کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 670
4۔ اس کے بعد پھر تشریف لائے تو اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے۔ دیکھتے ہی لپک پڑے اور وہی کیا جو ایسے موقع پر ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا باپ کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ ملاقات اتنے طویل عرصے کے بعد ہو ئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے بمشکل ہی اتنی لمبی جدائی برداشت کر سکتا ہے۔ اسی دفعہ دونوں نے مل کر خانۂ کعبہ تعمیر کیا۔ بنیاد کھود کر دیواریں اٹھائیں اور ابراہیم علیہ السلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی۔ اللہ تعالیٰ نے مضاض کی صاحبزادی سے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے۔ [1]جن کے نام یہ ہیں : نابت یا نبایوط ، قیدار ، ادبائیل ، مبشام ، مشماع، دوما ، میشا، حدد ، تیما، یطور ، نفیس اور قیدمان۔ ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے مکہ ہی میں بودوباش اختیار کی۔ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر یمن اور مصر وشام کی تجارت پر تھا۔ بعد میں یہ قبائل جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں ۔ بلکہ بیرون عرب بھی۔ پھیل گئے اور ان کے حالات ، زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے۔ صرف نابِت اور قیدار کی اوّلاد اس گمنامی سے مستثنیٰ ہیں۔ نبطیوں کے تمدّن کو شمالی حجاز میں فروغ اور عروج حاصل ہو ا۔ انھوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کرکے گردوپیش کے لوگوں کو اپنا باجگذار بنا لیا۔ بَطراء ان کا دار الحکومت تھا۔ کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ پھر رومیوں کا دور آیا اور انھوں نے نبطیوں کو قصۂ پارینہ بنادیا۔ انساب کا علم رکھنے والے محققین کی ایک جماعت کا رجحان یہ ہے کہ آلِ غسان اور انصار یعنی اَوس وخَزرج قحطانی عرب نہ تھے۔ بلکہ اس علاقے میں نابت بن اسماعیل(علیہ السلام )کی جو نسل بچی کھچی رہ گئی تھی وہی تھے۔ امام بخاری کا رجحان یہی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ان کے ایک باب کا عنوان یہ ہے: ’’نسبۃ الیمن إلی اسماعیل ‘‘اس پر انھوں نے بعض احادیث سے استدلال کیا ہے، حافظ ابن حجر اس کی شرح میں کہتے ہیں کہ قحطان نابت بن اسماعیل علیہ السلام کے نسل سے ہیں۔[2] قیدار بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں پھلتی پُھولتی پرہی یہاں تک کہ عَدنان اور پھر ان کے بیٹے مَعد کا زمانہ آگیا۔ عدنانی عرب کا سلسلۂ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے۔ عدنان ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلۂ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں۔ بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا سلسلۂ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے۔ فرماتے کہ ماہرینِ انساب غلط کہتے ہیں۔ [3]مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے