کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 667
سے دست کش ہوکر حضرموت گئے۔ مگر وہاں بھی امان نہ ملی اور آخر کار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ مگر یہ حکومت پائیدار نہ ثابت ہوئی اور ا س کے آثار جلد ہی ناپید ہوگئے۔ کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے –– اور اس کا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے –– جس نے یمن سے ترکِ وطن کر کے حدود عراق میں بادیۃ السماوہ کے اندر بود وباش اختیار کی [1] بعض نے ملک شام کے حدود میں اور شمالی حجاز میں سکونت اختیار کی۔ عرب مُستَعربہ: ان کے جَدِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اصلاً عراق کے شہر اُور کے باشندے تھے۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر کوفے کے قریب واقع تھا۔ اس کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہو ئے ہیں ان سے اس شہر کے متعلق بہت سی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کی بعض تفصیلات اور باشندگانِ ملک کے دینی اور اجتماعی حالات سے بھی پردہ ہٹا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے ہجرت کر کے شہر حَرّان تشریف لے گئے تھے اور پھر وہاں سے فلسطین جا کر اسی ملک کو اپنی پیغمبرانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا اور دعوت وتبلیغ کے لیے یہیں سے اندرون وبیرون ملک مصروفِ تگ وتاز رہا کرتے تھے۔ ایک بار آپ مصر تشریف لے گئے۔ فرعون نے آپ کی بیوی حضرت سارہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت حسن وجمال سنی تو ان کے بارے میں بد نیت ہو گیا اور اپنے دربار میں بُرے ارادے سے بلایا لیکن اللہ نے حضرت سارہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں غیبی طور پر فرعون کی ایسی گرفت کی کہ وہ ہاتھ پاؤں مارنے اور پھینکنے لگا۔ اس کی نیت بد اس کے منہ پر ماردی گئی اور وہ حادثے کی نوعیت سے سمجھ گیا کہ حضرت سارہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نہایت خاص اور مقرب بندی ہیں اور وہ حضرت سارہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام[2] کو ان کی خدمت میں دے دیا۔ پھر حضرت سارہ علیہا السلام نے حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا۔ [3]