کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 663
محسوس کررہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے کتاب لکھنے سے پہلے ہی یہ بات طے کرلی تھی کہ اسے بارِ خاطر بن جانے والے طول اور ادائیگی مقصود سے قاصر رہ جانے والے اختصار دونوں سے بچتے ہوئے متوسط درجے کی ضخامت میں مرتب کروں گا ، لیکن جب کتبِ سیرت پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ واقعات کی ترتیب اور جزئیات کی تفصیل میں اتنا اختلاف ہے کہ جمع وتوفیق کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ جہاں جہاں ایسی صورت پیش آئے وہاں بحث کے ہر پہلو پر نظر دوڑا کر اور بھر پور تحقیق کر کے جو نتیجہ اخذ کروں اسے اصل کتاب میں درج کردوں اور دلائل وشواہد کی تفصیلات وار ترجیح کے اسباب ذکر نہ کروں، ورنہ کتاب غیر مطلوب حد تک طویل ہوجائے گی۔ روایات کے رد وقبول میں مَیں نے سابق ائمہ متقنین کی تحریروں اور تحقیقات سے فائدہ اٹھایا ہے اور صحت وحسن وضعف کے سلسلے میں ان پر اعتماد کیا ہے، کیونکہ اس میدان میں اترنے کے لیے وقت قطعاً نا کافی تھا۔ البتہ جہاں یہ اندیشہ ہواکہ میری تحقیق قارئین کے لیے حیرت واستعجات کا باعث بنے گی، یا جن واقعات کے سلسلے میں عام اہل قلم نے کوئی ایسی تصویر پیش کی تھی جو میرے نقطۂ نظر سے صحیح نہ تھی وہاں دلائل کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے۔ یااللہ! میرے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی مقدر فرما۔ تو يقيناً غفور ودود ہے ، عرش کا مالک ہے اور بزرگ وبرتر ہے۔ صفی الرحمٰن مبارکپوری جمعۃ المبارک جامعہ سلفیہ ۲۴ /رجب ۱۳۹۶ ء مطابق ۲۳/جولائی ۱۹۷۶ء بنارس ، ھند ٭٭٭