کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 657
پر تقریب کا اختتام ہو گیا۔ ۱۷/ ربیع الآخر یوم جمعرات کو ہمارے قافلے کا رخ مدینہ منورہ کی طرف تھا۔ راستے میں بدر کی تاریخی رزمگاہ کا مختصراً مشاہدہ کرکے آگے بڑھے تو عصر سے کچھ پہلے حرم نبویؐ کے دروبام کا جلال وجمال نگاہوں کے سامنے تھا۔ چند دن بعد ایک صبح خیبر بھی گئے اور وہاں کا تاریخی قلعہ اندر وباہر سے دیکھا، پھر کچھ تفریح کر کے سرِ شام مدنیہ منورہ کو واپس ہوئے اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جلوہ گاہ ، جبریل امین کے اس مَہبَط ، قدوسیوں کی اس فردوگاہ اور اسلام کے اس مرکز انقلاب میں دو ہفتے گزارکر طائر شوق نے پھر حرم ِ کعبہ کی راہ لی۔ یہاں طواف وسعی کے ’’ہنگامے‘‘ میں مزید ایک ہفتہ گزارنے کاشرف حاصل ہوا۔ عزیزوں، دوستوں ، بزرگوں اور علماء ومشائخ نے کیا مکہ ، کیا مدینہ، ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یوں میرے خوابوں اور آرزؤوں کی سرزمین حجاز مقدس کے اندر ایک ماہ کا عرصہ چشم زدن میں گزرگیا اور پھر صنم کدۂ ہند میں واپس آگیا۔ حیف درچشم زدن صحبتِ یار آخر شُد روئے گل سیر ند یدیم وبہار آخر شُد حجاز سے واپس ہوا تو ہندوستان و پاکستان کے اُردو خواں طبقے کی طرف سے کتاب کو اُردو جامہ پہنانے کا تقاضا شروع ہوگیا۔ جو کئی برس گزرجانے کے باوجود برابر قائم رہا۔ ادھر نئی نئی مصروفیات اس قدر دامن گیر ہوتی گئیں کہ ترجمہ کے لیے فرصت کے لمحات میسر ہوتے نظر نہ آئے۔ بالآخر مشاغل کے اسی ہجوم میں ترجمہ شروع کردیا گیا اور اللہ کا بے پایاں شکر ہے کہ چند ماہ کی جزوی کوشش سے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ وللّٰہ الأمر من قبل ومن بعد ۔ اخیر میں میں ان تمام بزرگوں ، دوستوں اور عزیزوں کا شکریہ ادا کرناضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے اس کام میں کسی بھی طرح مجھ سے تعاون کیا۔ خصوصاً استاذمحترم مولانا عبد الرحمن صاحب رحمانی ، اور عزیزانِ گرامی شیخ عزیر صاحب اور حافظ محمد الیاس صاحب فاضلان مدینہ یونیورسٹی کا کہ ان کے مشورے اور ہمت افزائی نے مجھے وقتِ مقررہ پر اس مقالے کی تیاری میں بڑی مدد پہنچائی۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔ ہمارا حامی وناصر ہو۔ کتاب کو شرفِ قبول بخشے اور مؤلف ومعاونین اور مستفیدین کے لیے فلاح ونجاح کا ذریعہ بنائے۔ آمین !! ۱۸/ رمضان المبارک ۱۴۰۴ ھ صفی الرحمن المبارکفوری ٭٭٭