کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 655
بھی ہے، یہ خبر پڑھ کر اندر ہی اندر طلب وجستجو کا ایک ہنگامۂ محشر بپا ہوگیا۔ بنارس واپس آکر تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی مگرلاحاصل۔ ۱۰/ جولائی کو چاشت کے وقت____پوری رات مناظرہ بجرڈیہہ کے شرائط طے کرنے کے بعد بے خبر سورہا تھا کہ اچانک حجرے سے متصل سیڑھیوں پر طلبہ کا شور وہنگامہ سنائی پڑا اور آنکھ کھل گئی۔ اتنے میں طلبہ کا ریلا حجرے کے اندر تھا۔ ان کے چہروں پر بے پناہ مسرت کے آثار اور زبانوں پر مبارکبادی کے کلمات تھے۔ ’’کیا ہوا؟ کیا مخالف مناظرنے مناظرہ کرنے سے انکار کردیا ؟‘‘ میں نے لیٹے ہی لیٹے سوال کیا۔ ’’نہیں۔ بلکہ آپ سیرت نگاری کے مقابلہ میں اوّل آگئے۔ ‘‘ ’’اللہ! تیرا شکر ہے۔ ‘‘ ’’آپ حضرات کو کیسے علم ہوا۔ ‘‘ میں اُٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔ ’’مولوی عزیر شمس یہ خبر لائے ہیں۔‘‘ ’’مولوی عزیر یہاں آچکے ہیں؟‘‘ ’’جی ہاں۔‘‘ اور چند لمحوں بعد مولوی عزیر مجھے تفصیلات سنا رہے تھے۔ پھر ۲۲/شعبان ۱۳۹۸ ھ (۲۹/جولائی ۱۹۷۸ ء ) کو رابطہ کا رجسٹرڈ مکتوب واردہوا۔ جس میں کامیابی کی اطلاع کے ساتھ یہ مژدہ بھی رقم تھا کہ ماہ محرم ۱۳۹۹ھ میں مکہ مکرمہ کے اندر رابطہ کے مستقر پر ، تقسیم انعامات کے لیے ایک تقریب منعقد کی جائے گی اور اس میں مجھے شرکت کرنی ہے۔ یہ تقریب محرم کے بجائے ۱۲/ ربیع الآخر ۱۳۹۹ھ کو منعقد ہوئی۔ ا س تقریب کی بدولت مجھے پہلی بار حرمیَن شریفین کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ۱۰/ ربیع الآخر یوم جمعرات کو عصر سے کچھ پہلے مکہ مکرمہ کی پُر نور فضاؤں میں داخل ہوا۔ تیسرے دن ساڑھے آٹھ بجے ر ا بطہ کے مستقر پر حاضری کا حکم تھا۔ یہاں ضروری کارروائیوں کے بعد تقریباً دس بجے تلاوت ِ قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ سعودی عدلیہ کے چیف جسٹس شیخ عبد اللہ بن حمید ؒ صدر مجلس تھے۔ مکہ کے نائب گورنر امیر سعود بن عبد المحسن ۔ جو مرحوم ملک عبد العزیز کے پوتے ہیں …____تقسیم انعامات کے لیے تشریف فرما تھے۔ انھوں نے مختصر سی تقریر کی ، ان کے بعد رابطہ کے نائب سکریٹری جنرل شیخ علی المختار نے خطاب فرمایا۔ انھوں نے قدر ے تفصیل سے بتایا کہ یہ انعامی مقابلہ کیوں منعقد کرایا گیا اور فیصلے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ انھوں نے وضاحت