کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 654
ہی میں تھا کہ تعطیل کلاں کا وقت آگیا۔ ادھر رابطہ نے آنے والے محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو مقالات کی وصولی کی آخری تاریخ قرار دیا تھا۔ اس طرح مہلتِ کار کے کوئی ساڑھے پانچ ماہ گزر چکے تھے اور اب زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین ماہ میں مقالہ مکمل کر کے حوالۂ ڈاک کر دینا ضروری تھا تاکہ وقت پر پہنچ جائے اور ادھر ابھی سارا کام باقی تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ اس مختصر عرصے میں ترتیب وتسوید ، نظر ثانی اور نقل وصفائی کا کام ہوسکے گا۔ مگر اصرار کرنے والوں نے چلتے چلتے تاکید کی کہ کسی طرح کی غفلت یا تذبذب کے بغیر کام میں جت جاؤں۔ رمضان بعد ’’سہارا‘‘ دیا جائے گا۔ میں نے بھی فرصت کے ایام غنیمت سمجھے۔ اشہبِ قلم کو مہمیز لگائی اور کدوکاوش کے بحر بیکراں میں کود پڑا۔ پوری تعطیل سہانے خواب کے چند لمحوں کی طرح گزر گئی اور جب یہ حضرات واپس پلٹے تو مقالے کا دوتہائی حصہ مرتب ہو چکا تھا۔ چونکہ نظر ثانی اور تبییضکا موقع نہ تھا اس لیے اصل مسودہ ہی ان حضرات کے حوالے کردیا کہ نقل وصفائی اور تقابل کا کام کر ڈالیں۔ باقی ماندہ حصے کے کچھ دیگر لوازمات کی فراہمی وتیاری میں بھی ان سے کسی قدر تعاون لیا۔ جامعہ کی ڈیوٹی اور ہماہمی شروع ہوچکی تھی۔ اس لیے زمانۂ تعطیل کی رفتار برقرار رکھنی ممکن نہ تھی۔ تاہم ڈیڑھ ماہ بعد جب عید ِالاضحیٰ کی تعطیل کا وقت آیا تو ’’شب بیداری‘‘ کی ’’برکت‘‘ سے مقالہ تیاری کے آخری مرحلے میں تھا ، جسے سرگرمی کی ایک جست نے تمام وکمال کو پہنچا دیا اور میں نے آغاز محرم سے بارہ ، تیرہ دن پہلے یہ مقالہ حوالۂ ڈاک کردیا۔ مہینوں بعد مجھے رابطہ کے دو رجسٹرڈ مکتوب ہفتہ عشرہ آگے پیچھے موصول ہوئے۔ خلاصہ یہ تھا کہ میرا مقالہ ، رابطہ کے مقررہ شرائط کے مطابق ہے، اس لیے شریکِ مقابلہ کر لیا گیا ہے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد دن پر دن گزرتے گئے حتیٰ کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ بِیت گیا ، مگر رابطہ مہر بلب۔ میں نے دوبارہ خط لکھ کر معلوم کرنا بھی چاہا کہ اس سلسلے میں کیا ہو رہا ہے تو مہرِ سکوت نہ ٹوٹی۔ پھر میں خود بھی اپنے مشاغل اور مسائل میں اُلجھ کر یہ بات تقریباً فراموش کر گیا کہ میں نے کسی ’’مقابلہ‘‘ میں حصہ لیا ہے۔ اوائل شعبان میں ۱۳۹۸ھ ( ۶/۷/۸ جولائی ۱۹۷۸ء کو) کراچی (پاکستان) میں پہلی ایشیائی اسلامی کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ مجھے اس کی کارروائیوں سے دلچسپی تھی۔ اس لیے اس سے متعلق اخبار کے گوشوں میں دبی ہو ئی خبریں بھی ڈھونڈھ کر پڑھتا تھا۔ ایک روز بھدوہی اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں ____جو لیٹ تھی ____اخبار دیکھنے بیٹھ گیا۔ اچانک ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی کہ اس کانفرنس کے کسی اجلاس کے اندر رابطہ نے سیرت نگاری کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے پانچ ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ او ر ان میں ایک مقالہ نگار ہندوستانی