کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 653
عرض مؤلف اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَمِن وَالَاہ ، أمَّا بَعْد ! یہ ربیع الاوّل ۱۳۹۶ ھ (مارچ ۱۹۷۶ ء ) کی بات ہے کہ کراچی میں عالم اسلام کی پہلی سیرت کانفرنس ہوئی۔ جس میں رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کانفرنس کے اختتام پر ساری دنیا کے اہل قلم کو دعوت دی کہ وہ سیرت ِ نبوی ؐ کے موضوع پر دنیا کی کسی بھی زندہ زبان میں مقالے لکھیں۔ پہلی ، دوسری ، تیسری ، چوتھی اور پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب پچاس ، چالیس، تیس ، بیس اور دس ہزار ریال کے انعامات دیے جائیں گے۔ یہ اعلان رابطہ کے سرکاری ترجمان اخبار العالم الاسلامی کی کئی اشاعتوں میں شائع ہوا لیکن مجھے اس تجویز اور اعلان کا بروقت علم نہ ہوسکا۔ کچھ دنوں کے بعد جب میں بنارس سے اپنے وطن مبارکپور گیا تو مجھ سے اس کا ذکر کیا گیا اور زور دیا گیا کہ میں بھی اس مقابلے میں حصہ لوں۔ میں نے اپنی علمی کم مائیگی اور ناتجربہ کاری کا عذر کیا مگر اصرار قائم رہا اور بار بار کی معذرت پر فرمایا گیا کہ ہمارا مقصود یہ نہیں ہے کہ انعام حاصل ہو، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اسی ’’بہانے‘‘ ایک ’’کام ‘‘ ہوجائے۔ میں نے اس اصرارِ مسلسل پر خاموشی تو اختیار کر لی لیکن نیت یہی تھی کہ اس مقابلے میں حصّہ نہیں لوں گا۔ چند دن بعد جمعیت اہل حدیث ہند کے آرگن اور پندرہ روزہ ترجمان دہلی میں رابطہ کی اس تجویز اور اعلان کا اُردو ترجمہ شائع ہوا تو میرے لیے ایک عجیب صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ جامعہ سلفیہ کے متوسط اور منتہی طلبہ میں سے عموماً جس کسی سے سامنا ہوتا وہ اس مقابلے میں شرکت کا مشورہ دیتا۔ خیا ل ہوا کہ شاید ’’ خلق کی یہ زبان ‘‘ ’’خدا کا نقارہ ‘‘ہے۔ تاہم مقابلے میں حصہ نہ لینے کے اپنے قلبی فیصلے پر میں قریب قریب اٹل رہا۔ کچھ دنوں بعد طلبہ کے ’’مشورے‘‘ اور ’’تقاضے‘‘ بھی تقریباً ختم ہی ہو گئے۔ مگر چند ایک طالب علم اپنے تقاضے پر قائم رہے۔ بعض نے مقالے کے تصنیفی خاکے کو موضوعِ گفتگو بنا رکھا تھا اور بعض کی ترغیب اصرار کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ بالآخر میں خاصی ہچکچاہٹ کے ساتھ آمادہ ہو گیا۔ کام شروع کیا۔ لیکن تھوڑا تھوڑا۔ کبھی کبھی اور آہستہ خرامی کے ساتھ۔ چنانچہ ابھی بالکل ابتدائی مرحلے
[1] شفاء قاضی عیاض ۱؍۱۲۱ نیز دیکھئے شمائل ترمذی [2] شفاء قاضی عیاض ۱؍۱۰۷