کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 647
دیباچہ طبع سوم (عربی) (از عزت مآب ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف سکریٹری جنرل رابطہ عالم اِسلامی ، مکہ المکرمہ ) الحمد للّٰه الذی بنعمتہ تتم الصالحات، وأشہد أن لا إلہ إلا اللّٰه وحدہ لا شریک لہ، وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ وصفیہ وخلیلہ، أدی الرسالۃ وبلغ الأمانۃ، ونصح الأمۃ، وترکہا علی المحجۃ البیضاء لیلہا کنہارہا، صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، ورضی عن کل من تبع سنتہ وعمل بہا إلی یوم الدین، وعنا معہم بعفوک ورضاک یا أرحم الراحمین ۰ أما بعد : سنت نبویہ مطہرہ ، جو ایک تجدید پذیر عطیہ اور تاقیامت باقی رہنے والا توشہ ہے اور جس کو بیان کرنے اور جس کے مختلف عنوانات پر کتابیں اور صحیفے لکھنے کے لیے لوگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سے مقابلہ اور تنافس جاری ہے، اور قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ سنت مطہّرہ مسلمانوں کے سامنے وہ عملی نمونہ اور واقعاتی پروگرام رکھتی ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتار وگفتار اور کردار واطوار کو نکلنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق اور کنبۂ و قبیلہ ، برادران واخوان اور افرادِ امت سے ان کا ربط اس کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا ﴾(الاحزاب: ۲۱) ’’ يقيناً تمہارے ہر اس شخص کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین اسوہ ہے جو اللہ اور روزِآخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔‘‘ اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ انھوں نے فرمایا : ((کان خلقہ القرآن۔)) ’’بس قرآن ہی آپ کا اخلاق تھا۔ ‘‘ لہٰذا جو شخص اپنی دنیا اور آخرت کے جملہ معاملات میں ربانی شاہراہ پر چل کر اس دنیا سے نجات چاہتا ہوا س کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کر ے
[1] خلاصۃ السیر ص ۲۰ [2] ایضاً خلاصۃ السیر ص ۲۰ [3] مشکوٰۃ ۱؍۲۲، ترمذی : ابواب القدر ، باب ماجاء فی التشدید فی الخوض فی القدر ۲؍۳۵ [4] جامع ترمذی مع شرح تحفۃ الاحوذی ۴؍۳۰۶ [5] ترمذی مشکوٰۃ ۲؍۵۱۸ [6] خلاصۃ السیر ص: ۱۹ ،۲۰ [7] صحیح بخاری۱؍۵۰۳ صحیح مسلم ۲؍۲۵۷ [8] صحیح بخاری ۱؍۵۰۲