کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1284
کی بات ان کے پہلے شخص کی بات ہوتی۔ جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ بھی ہنستے ، اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب کرتے۔ اجنبی آدمی بات میں جفا سے کام لیتا تو اس پر آپ صبر کرتے ، اور فرماتے : جب تم لوگ حاجت مند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو۔ آپ احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثناء کے طالب نہ ہوتے۔[1] خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں سب سے باوقار ہوتے۔ اپنا کوئی عضو باہر نہ نکالتے۔ بہت زیادہ خاموش رہتے۔ بلا ضرورت نہ بولتے۔ جوشخص نامناسب بات بولتا اس سے زُخ پھیر لیتے۔ آپ کی ہنسی مسکراہٹ تھی۔ اور کلام دوٹو ک ، نہ فضول نہ کوتاہ ، آپ کے صحابہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر واقتداء میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی۔[2] حاصل یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے نظیر صفاتِ کمال سے آراستہ تھے۔ آپ کے رب نے آپ کو بے نظیر ادب سے نوازا تھا حتیٰ کہ اس نے خود آپ کی تعریف میں فرمایا : ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾(القلم۶۸: ۴) ’’ يقيناً آپ عظیم اخلاق پر ہیں۔‘‘ اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھینچ آئے۔ دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بیٹھ گئی۔ اور آپ کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وارفتہ ہوگئے۔ انہی خوبیوں کے سبب آپ کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ یہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوگئی۔ یاد رہے کہ ہم نے پچھلے صفحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے ، وہ آپ کے کمال خلق اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چھوٹی چھوٹی لکیر یں ہیں۔ ورنہ آپ کے مجد وشرف اور شمائل وخصائل کی بلندی اور کمال کا یہ عالم تھا کہ ان کی حقیقت اور تہ تک نہ رسائی ممکن ہے ، نہ اس کی گہرائی ناپی جاسکتی۔ بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی کنہ تک کس کی رسائی ہوسکتی ہے، جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنا یا۔ اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منو ّر ہوا کہ کتاب ِ الٰہی ہی کو اس کا وصف اور خُلق قرار دیا گیا ،یعنی.....ع قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ صفی الرحمن المبارکپوری حسین آباد ، مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ( یوپی ) ہند ۱۶/ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ ۱۷/ جون ۱۹۸۴ھ