کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1283
اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے۔ اور لوگوں کے حالات دریافت فرماتے۔ اچھی چیز کی تحسین وتصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح وتوہین۔ معتدل تھے ، زیادہ نشیب وفراز نہ تھا غافل نہ ہوتے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یاملول خاطر ہوجائیں۔ ہر حالت کے لیے مستعد رہتے تھے۔ حق سے کوتاہی نہ فرماتے تھے نہ ناحق کی طرف تجاوز فرماتے تھے، جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے۔ اور ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو۔ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسار مددگار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ضرور فرماتے۔ جگہیں متعین نہ فرماتے ۔ یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے۔ جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے۔ اور اسی کا حکم بھی فرماتے۔ ہرجلیس کو اس کا حصہ عطا فرماتے ، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ باعزت ہے۔ کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے رکے رہتے کہ وہی پلٹ کر واپس ہوتا۔ کوئی کسی ضرورت کا سوال کردیتا تو آپ اسے عطا کیے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نواز ا۔ یہاں تک آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ اور سب آپ کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے۔ کسی کو فضیلت تھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس حلم وحیا ء اور صبر وامانت کی مجلس تھی۔ اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں۔ اور نہ حرمتوں کا مرثیہ ہوتا تھا ۔ یعنی کسی کی آبروپر بٹہ کا اندیشہ نہ تھا۔ لوگ تقویٰ کے ساتھ باہم محبت وہمدردی رکھتے تھے۔ بڑے کا احترام کرتے تھے۔ چھوٹے پر رحم کرتے تھے۔ حاجت مند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی ، سہل خو اور نرم پہلو تھے۔ جفاجو اور سخت خو نہ تھے۔ نہ چیختے چلاتے تھے ، نہ فحش بکتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے۔ نہ بہت تعریف کرتے تھے ، جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا۔ [۱] ریاء سے [۲ ] کسی چیز کی کثرت سے [۳]اور لا یعنی بات سے ، اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم [۱]کسی کی مذمت نہیں کرتے تھے [۲ ] کسی کو عار نہیں دلاتے تھے [ ۳ ] اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین اپنے سر جھکالیتے گویا ان کے سروں پر چڑیا ہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے۔ آپ کے پاس جو کوئی بولتا سب اس کے لیے خاموش رہتے ، یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا۔ ان