کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1282
اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفُّع اختیار فرماتے تھے۔ اپنے خادم کاکام خودہی کردیتے تھے۔ کبھی اپنے خادم کو اُف نہیں کہا، نہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر عتاب فرمایا۔ مسکینوں سے محبت کرتے ، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے۔ کسی فقیر کوا س کے فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے۔ ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا۔ ایک نے کہا : ذبح کرنا میرے ذمہ ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ ، تیسرے نے کہا : پکانا میرے ذمہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکڑی جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا : ہم آپ کاکام کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جانتاہوں تم لوگ میرا کام کردوگے۔ لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم پر امتیاز حاصل کرو ں، کیونکہ اللہ اپنے بندے کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر لکڑی جمع فرمائی۔[1]
آیئے! ذرا ہند بن ابی ہالہ کی زبانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف سنیں۔ ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیہم غموں سے دوچار تھے۔ ہمیشہ غور وفکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے لیے راحت نہ تھی۔ بلا ضرورت نہ بولتے تھے۔ دیر تک خاموش رہتے تھے۔ بات کا آغاز واختتام پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے،جامع اور دوٹوک کلمات کہتے تھے۔ جن میں نہ فضول گوئی ہوتی تھی نہ کوتاہی۔ نرم خو تھے۔ جفا جو اور ناقدرے نہ تھے۔ نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے۔ کسی چیز کی مذمت نہیں فرماتے تھے۔ کھانے کی نہ برائی کرتے تھے نہ تعریف ، حق سے کوئی تعرض کیا جاتا تو جب تک انتقام نہ لے لیتے آپ کے غضب کو روکا نہ جاسکتا تھا۔ البتہ کشادہ دل تھے، اپنے نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے۔ جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے۔ اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے۔ جب غضبناک ہوتے تو رُخ پھیر لیتے۔ اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے۔ آپ کی بیشتر ہنسی تبّسم کی صورت میں تھی۔ مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے۔
لایعنی بات سے زبان روکے رکھتے۔ ساتھیوں کو جوڑتے تھے توڑتے نہ تھے۔ ہر قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے۔ اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے۔ لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے تھے۔ لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ جبینی ختم نہ فرماتے تھے۔