کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1280
جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ نہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دریائے سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے۔ اور حضرت جبریل رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر رات ملاقات فرماتے۔ اور قرآن کا دور کراتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کی سخاوت میں ( خزائن رحمت سے مالا مال کرکے ) بھیجی ہوئی ہواسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے۔[1] حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے نہیں کہہ دیا ہو۔[2] شجاعت ، بہادری اور دلیری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی برھتے گئے۔ پائے ثبات میں ذرالغزش نہ آئی۔ بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے ہیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب زور کارَن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیا کر تے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ [3]حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ آوازکی طرف دوڑے۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ (کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے ) چکے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک ننگے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی۔ اور فرمارہے تھے : ڈرو نہیں ، ڈرو نہیں۔[4] (کوئی خطرہ نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیا دار اور پست نگاہ تھے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوارگزرتی تو چہرے سے پتہ لگ جاتا۔[5]اپنی نظریں کسی کے چہرے پر گاڑتے نہ تھے۔ نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی۔ عموماً نیچی نگاہ سے تاکتے تھے۔ حیا اور کرم نفس کا عالم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رُودررُو نہ کہتے۔ اور نہ کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لے کر ا س کا ذکر کرتے۔ بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کررہے ہیں۔ فَرزْدَق کے اس شعر کے