کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1277
حضرت براء کا بیان ہے کہ آپ کا پیکر درمیانی تھا۔ دونو ں کندھوں کے درمیان دوری تھی۔ بال دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ کو سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا، کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی۔[1] پہلے آپ اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے ، اس لیے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے۔ لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔[2] حضرت براء کہتے ہیں : آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ کے اخلاق سب سے بہتر تھے۔[3]ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا۔ انہوں نے کہا : نہیں بلکہ چاند جیسا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کا چہرہ گول تھا۔[4] ربیع بنت معوذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے۔[5] حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ، اور چاند کودیکھتا۔ آخر (اسی نتیجہ پر پہنچا کہ ) آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔[6] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی لگتا تھا سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں رواں دواں ہے۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا۔ لگتا تھا زمین آپ کے لیے لپیٹی جارہی ہے۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے۔ اور آپ بالکل بے فکر۔[7] حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا ، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔[8] ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف فرماتھے۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابو کبیر ہذلی کا شعر پڑھا: وإذا نظرت إلی أسرۃ وجہہ برقت کبرق العارض المتہلل [9] ’’جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔‘‘ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے :